Saturday, February 27, 2021

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے****

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون ہے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے

سرحد ‏پار ***‏

کیا سرحد کے پار پریم رنگوں میں ڈھلی مورت دیکھی؟
کیا سرحد کے پار یار کی یار میں  صورت دیکھی؟
لکھتے ہوئے جس قدر خوش ہوں، اسی قدر کرب سے دوچار ہوں ... 
آتش شوق کے مرغولے بکھر کے دائرے بناتے ہیں 
ان دائروں میں ان کہی کہانی کی تحریر دیکھتی ہوں.  
یہ دائرے سرحد پار سے میرے ہست نگر کے گرد چکر کھا رہے ہیں 
صدائے عشق مجھے نہ دو 
غمِ عشق میں حال سے گئے
کسے فرصت سنے شب دیجور میں سرحد پار کے فسانے 
سرحد پار مٹی کے پتلوں سے ہوتے ہوائیں پیٍغام دیتی ہیں 
آہستہ آہستہ چلیے 
یہ زینہ عشق  قرینہ ادب سے ملتا ہے.
الفت کے نشے میں سرشار ہوں، کسے خبر شرر بار ہوں 
میری حدت سے گھبرا کے آنکھیں موند لیں جس نے 
ہواؤں جاؤ،  بتاؤ اسکو!  بتادو کہ جاودانی ملی ہے!  یہ شراب عشق سے نصیب ہے.  
حبیب کون ہے؟  رقیب کون ہے؟  
کس کو خبر وحید کون ہے؟
کس کو عطا رنگِ پیرہن ہے 
کس کو ملی دستار شوق کہ وہ مدہوش ہے.  
سرمہ ء وصال میں رنگت کا سوال ہے بابا 
رنگت سرمئی ہے!  وجدانی لہر نے نعرہ لگایا.  صبغتہ اللہ!  
ملتا ہے یہ رنگ جس کو 
اسی کو شام و سحر میں انعام ملتا ہے 
وجدان!
وجدان کیا ہے 
میں اکثر سوچتی ہوں وجدان کیا ہے ؟  میں حیران رہ جاتی ہوں کہ وجدان بس ایک راستہ ہے. ایک سفر کی گزرگاہ جو وقت کے ساتھ طویل ہوجاتی ہے اور بحر کی مانند وسیع ہوجاتی ہے.  وجدان الوہیت کے چراغوں کو پانے کا راستہ ہے!  یہ شام حنا ہے جو رات کی ہتھیلی پر سجتی ہے. یہ رات کی قبا ہے جس کو پہن پہن کے رات بہروپ بدل کے جلوہ گر ہوتی ہے. رات کا حجاب کب اترے گا!  افسوس رات کا حجاب تار ازل سے تار ابد تک کالا ہی رہے گا اور اس بے معنویت سے گزر کے صبحیں ملتی رہیں گی مگر اے چارہ گر 
رات کے چراغ سے،  شام کے لباس میں چلتے ہوئے شمس کے سامنے نہ آجانا کہ چاند ہی کافی ہے!  اصل کا پردہ فاش ہوتا ہے تو شمس شمس نہیں رہتا اور چاند چاند نہیں. چاند پر شمس کا گمان اور شمس پر چاند کا. رات اپنے بے معنوی حسن کے پیچھے چاند و سورج کی گفتگو کھولتی ہے تو حجاب فاش ہوتا ہے کہ رات آنکھ کا دھوکا ہے ہر طرف اسی کا سرمدی دھواں ہے بس اسی سرمدی دھواں کے چھپ جانا، چبری اوڑھ لینا حجاب ہے.  حجاب کو ملال کیا ہوسکتا ہے؟  سوچیے؟  سوچ تو یہی ہے کہ حجاب خود اٹھنا چاہتا ہے تاکہ حسن کی سرسامانیوں سے اسے سکون ملے، سامنے والا اس جلوے کو سہے بار بار اور کہے 
حق محمد!  حق علی! حق اللہ 
حق حسین!  حق علی!  حق فاطمہ 
حق اللہ حق محمد

قدیم ‏نور ‏

لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا  دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی    ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا 

یا ایھا المدثر 

اے کمبل اوڑھنے والے ....  درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے  ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے ..  یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل 

اللہ ہے خیال،  مجاز میں رحمن 
اللہ ہے حق،  مجاز میں رحمن 

خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں.    انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے،  روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے 
قم فانذر 

اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے  ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے 

سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے  اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے  یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے

حبیب ‏دل ‏میں ‏رہا ‏ہے ***‏

حبیب دل میں رہا ہے 
قرینِ جاں وہ رہا ہے 
کون ہے وہ پتا بتاؤ؟
نَہیں!  حجاب اچھا 
نہیں اچھا نقاب!  
پاگل ہو تم،  سب دید میں ہیں 
محو لقا ہیں 
گم دیوانے ہیں 
مے خانے پیمانے میں ہو 
تم کو دیوانے کہتے ہیں 
میخانے پیمانے میں ہیں 
دل میں رہتے مستانے ہیں 
یہ دل مکین جانب اطہر ہے 
شاہ دو جہاں کا یہ اثر ہے 
دنیا کی دل میں اک قبر ہے 
دنیا نبھانی اب اک  جبر ہے 
دنیا میں رہنا؟  ارے حذر ہے 
دنیا مٹی ہے اور دل پاؤں ہے 
رکھی کسی نے یہ چھاؤں ہے 
رحمت کی بدلی چھائی ہے 
رحمت سے دنیا پاؤں میں ہے 
کملی والے نے لاج رکھی ہے 
صدائے دل میں بات رکھی ہے 
وہ کون ہے جس میں جلوہ حق نما ہے 
وہ کون ہے جس کو غازہ کہا دنیا نے 
غازہ حق لیے وہ شہپر جبرئیل لیے ہے 
دل کو دیکھو یہ بابرکت قندیل لیے ہے 
وہ محمد کا نور ہے دل پر نوری ہالہ ہے 
یہ شیریں درود ہے کہ درود کا پیالہ ہے 
دل میرا جھکا ہے  کہتا ہے شہ والا  ہے 
دل کی زمینیں ہیں 
دل کے افلاک ہیں 
دل پر رحمت کی بدلی ہے 
دل پر جنبشِ مژگان نے نم کردیا یے 
نم ڈالتے ہیں وصل کرتے ہیں ہم 

میں نے محبوب سے پوچھا تم کہاں تھے؟  کیوں نہیں ملے اس سے قبل؟ کتنا رلایا تھا ...رات جگایا تھا مگر نہ آئے تم ...اب تم آئے ہو جب دجلہ سوکھ گیا ہے جب بادل پانی کھوچکے ہیں جب بینائی نے آنکھ کھودی ... ظلم ہوا نا مجھ پر ... محبوب پیارا ہوتا ہے محبوب آنکھ ہوتا ہے آنکھ ہے روشنی ہے ...آنکھ اسم ذات ہے محبوب اسم ذات ہے محبوب بندگی کی وہ روشنی ہے جو ھو بن کے دل میں جل.رہی ہے. رحمت کی جل تھل ہے کہ جل جل بجھ بجھ کے جل رہی ہوں. کملی.والے نے پناہ دے رکھی ہے میری ذات میں شام رکھی ہے دل رات کی ہتھیلی میں ہےاور سورج کی تابش میں جلن نے دل جلا دیا 

جل گیا دل.اور بچا کیا؟ 

تو بچائے کیا آئنہِ دل؟  دل تو بچا ہی نہیں ہے دل کسی کی یاد میں فنا ہے ... فنا ہونے کے لیے محبوب چاہیے ہوتا ہے اور جس دل کو طالب نہ ملے وہ مطلوب نہیں ہو سکتا ...
جس.کو.مطلوب نہ ملے وہ طالب نہیں اچھا 

طالب بن جا مطلوب پاس ہو 
مطلوب ہو جا کہ طالب پاس ہو 

یہ قاب قوسین کی.رمز نرالی ہے ...ہم ان کے سائے میں ہیں یہ حکمت نرالی ہے ...یہ ثمہ دنا کی.رفعت بن مطلوب حاصل نہیں ہوتی ہے ...مرشد کا سینہ.قران ہے جس کو سینہ نہ ملے اسکو پناہ نہیں ملے گی ... اپنے آپ کو بچالو محبت سے ...

اے محبوب تم نے کتنے واسطوں، کتنے سلسلوں میں بات کی؟
تم کو دوئ میں جا بجا دیکھا 
تم کو خود میں نہاں دیکھا 
اے محبوب بتاؤ کہاں کہاں نہیں دیکھا .. باہر ہو تم ..اندر بھی تم ... تمھارے نام کی شمع جلتی ہے دل میں تو نام اللہ نکلتا ہے. تسبیح دل والی پڑھو. تسبیح کیا ہے؟

محبوب کہتا ہے کہ تسبیح دھیان ہے دھیان میں آجاو ..دھیان فکر ہے اور افکار میں وسعت ہے وسیع ہوجاؤ لامحدود ہو جاؤ عشق لامحدود ہے اور تم کیسے دھیان محدود کیسے کرسکتے. تم کو رفعت پر جانا ہے اور بے انتہا کی شدت میں گم ہونا 

اے  بیخودی ہم کو تھام لے 
اے خودی تجھ میں گم ہیں 
یہ خودی سے ابھرتا جنون ہے 
روح گم ہے اور گم کس جہان میں ہے 

اچھا.محبوب کہتا ہے کہ جام وحدت پی لے اور کہہ دے دوئی نقش ہے جھوٹا اور کردے عشق سچا. 

دل بتا تو سہی کہ عشق سچا میں کیسے کروں؟  تو خود اسم دعا بن کے مٹا دے جھوٹ دل کا اور ہو جا مجھ میں بس اک تو سچا 

حق سچا اللہ ہے 
محبوب میرا اللہ ہے 
محبوب وہ ہے جو اللہ سے ملا دے 
اللہ.اللہ اللہ کہو 
اللہ.سے اللہ ملے گا 
اللہ کہنے میں رمز پوشیدہ ہے 
ذات خود میں پہچان کرچکی ہے 
یہ معرفت وہ حاصل کرچکی ہے ...

طریقہ ----*****‏

چل اس نہج کہ زمین کی گردش تھم جائے اور افکار کے سلاسل مل جائیں. کچھ مل جائے تو دل ہِل جائے. دل کو صدا سنائی دے یا چہک اس بلبل کی جو زمن در زمن ساتھ میرے ہے. زمانہ تو میرے ساتھ ہے تو میں کون ہوِں. مجھے افلاک کا سینہ چیر کر دکھایا جائے تو دل گویا ظاہر ہوجائے. ایسے ممکن نہ تھا کہ مکان گویا مکین کے بنا.ہو. مکین ساتھ ہو.تو زمانے ساتھ ہوتے ہیں ..  مکین سے پوچھا جائے کہ زمانے ساتھ ہیں تو اس مکان کی حیثیت کیا ہوگی. مکان والے بڑی شان والے ہوتے ہیں اور شان کریمی سے پردہ بڑا رہ جاتا ہے. فہم سے مدبر ہوتا انسان خود میں دربار ہوجاتا ہے. دل میں مکین ہو شاہ اور حجاب رہے تو حضرت انسان پردے سے ہچکچاتا ہے  ہچکی لگی رہے گی تو زمین خالی نہ رہے گی. سیلاب زندگی کا عندیہ ہیں اور تخریب کا صدقہ بھی  یہ تلاطم وجود میں جب بھرپور ہوتے ہیں اور شور میں ہیجان آتا ہے  شور کہتا ہے کہ  چل جانب منزل  چل اس متناہی سلاسل سے لامکان کی منزل پر جہاں تجھ پر حقائق ہائے ھو کھلیں  جہاں شور میں سکوت اور سکوت میں شور ہوجائے  دل میں بس اک صدا ہو بس جناب وہ کہیں گے 

یا محب و محبوب 
یا مطوب و طالب 
یا عاشق و معشوق
اے طواف والی ہستی 
مطاف میں بٹھا 
مطاف میں نور ہے 
نور جانے کس کا ہے 
نورِ من تو سن!
طورِ دل بتا تو 
کہ انگلیاں کٹ گئیں 
بنا دیکھے حسن کی تابش 
دیکھیں گے تو حال کیا ہوگا 
یہ جلوہ حضور 
مجھے کرے مہجور 
وادی عشق میں طیور 
ان کی جانب ہیں ضرور 
مٹ جائیں دل کے فتور 
دل کو مل جائے صبوری 
راقم سے ہو بات ضروری

سفر ‏کا ‏آغاز ‏***

سفر کا آغاز شروع نہیں ہوتا مگر جب بچہ قدم رکھتا ہے ـ قد بڑھ جاتا ہے اور شعور پختہ ہوجاتا ہے ـ روح کا شعور سمجھنا پڑتا ہے یعنی شعور میں لانا پڑتا ہے ـ تم فلک پر بیٹھ کے وہ لکھتے ہو جو وہ لکھواتا ہے، تو پھر شعور بیدار ہے مگر تم زمین پر رہ کے اسی میں کھو گئے ہو تو زمین کی ناسوتی نے تم کو گھیر لیا ہے ـ  فلک پر مقیم ہونے کے لیے طائر کو پرواز چاہیے ہوتی ہے. پرواز کو پر لگانے والا جانتا ہے نور کن ہندسوں اور کن حروف سے منتقل ہوتا ہے ـ  تم کو آیات نوری چاہیے اور تم نہیں جانتے کہ خدا تم کو یہ آیات نوری دینا چاہتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نور اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے ـ دائرہ مکمل ہوتے ہی فرق مٹ جاتے ہیں ـ تب ہی دوئی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ـ وحدت کی جانب سفر کا آغاز خشیت سے ہوتا ہے جب روح کو جلال ملنے لگے تو یہ مقام ہے ـ مقام اقرا.  یہ مقام لاہوت ہے. مقام لاہوت پر جائے بنا لفظ اقراء کے مکارم سمجھ نہیں آتے. جب لاہوت پر مقیم طائر جاننے لگتے ہیں تو ان کو ترس ہونے لگتی ہے کہ قراءت ہو مزید. ھل من مزید کرتے کرتے ان کو سرر کی منازل میں وہ سب طے کرایا جاتا جس کے واسطے ان کو عبدیت کا درجہ ملنا ہوتا یے. ہم چاہتے ہیں کہ انتخاب کریں تو ہمارا انتخاب کا طریقہ یہی ہے کہ دینے والا بس تسلیم میں رہے کہ بقا ہمیں ہے. یہ ہماری کرسی ہے جس پر ہم قرار کیے ہوئے ہیں. ہم دیکھتے ہیں تو روح دمکنے لگتی ہے. اسکو ہماری چاہت ہے. اے طائر،  تو نفس کے دھوکے و فریب میں پھنس کے اس کرسی کو اپنی کرسی مت سمجھنا ورنہ شہ رگ سے جو قلبی قلبی فرشتہ ہے،  جان کنی کے عالم میں اس سے ملنا محال ہو جائے گا. ہم نے جو عطائے غیب سے عطا کیا ہے وہ اک جریدہ ہے. اس پر جو تحریر ہے وہ فیکون کا وہ علم ہے جو تکوین کا محتاج ہے. ہم نے چاہا کہ پرواز دی جائے تو ہم چاہیں گے ایسا ہوگا. کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہمارے قانون میں دخل ڈالے 

اے طائرِ سدرہ!  تجھے کس بات نے دھوکے میں ڈآل رکھا ہے؟  یقین کے بنا کچھ ممکن نہیں ہوتا ہے. جب تک نوری ہالہ مکمل نہ ہو، تب تک وہ مقام مقربین کا جو لکھا ہے، وہ ملتا نہیں . نقطے سے سفر شروع ہوتا یے دائرہ بنتا ہے اور دائرہ پھرنقطے تک لوٹ آتا ہے. سو لوٹ کے ہمارے پاس آنے والی روح،  اطمینان سے رہ!  سمیٹ لے یہ اشک اور سجدے میں رہ. خدا ساجدین کو محبوب رکھتا یے خدا صابرین کو محبوب رکھتا یے

قلم-- ‏کہانی ‏

اپنی کہانی ہے اور قلم لکھ رہا ہے. اصنام ستارے سے یا افلاک سے پرے مگر ہیں اصنام  ... دل کو ایک صنم کافی ہے جس نے انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا کہ تو اب اٹھ اور کر کام. کام کے لیے یہ جہاں ہے. جہان میں ستارے ہیں جبکہ ہر انسان ستارہ سحری لیے ہے. تجھے چاہیے کہ ستارے کے پاس نہ جا بلکہ ذات کے سحر میں ستارہ ہو جا. اب کن سے فیکون ہو جا. امر حاصل ہے تجھ کو کہ خداکا امر ہے ہر جگہ اور اسم ذات سے جڑی ارواح کی تسبیح اللہ اللہ اللہ ہے. اللہ اللہ اللہ کرنے سے کام بن جاتا ہے کہ خدا ماں جیسا مہربان ہے مگر خدا اپنے ساتھ ذات کا خلوص مانگتا ہے. تجھ کو چاہیے کہ نیت خالص کرکے خدا کے پاس چل. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹا دیا جائے تو تڑپ کو قرار کب ملتا ہے  تڑپ جذب کرنے سے قائم ہوجاتا ہے اسم ذات مگر نادان اس بات کو کہاں سمجھ سکتے. اے دل! قسم اس جہان میں ہزار دل ہے اور ہر دل میں اللہ ہے  ہر دل کی تسبیح ہے اللہ اللہ اللہ. اللہ کے اسم ذات سے ھو کا جلوہ ہوتا ہے. ہر جانب ھو ہے یعنی اللہ پورے جہان میں جلوہ گر ہے. کب کسی نے کہا ہے کہ قران پاک مقدس جائے نمازِ دل ہے. جب تک نیت کا جائے نماز بچھایا نہ جائے دل وضو نہیں کرسکتا. اے دل!  قرار پکڑ کے قائم ہو جا اس کلمے سے جس میں ھو کی نشانیاں ہیں. محبت مل جاتی ہے اور محبت تقسیم ہوجاتی ہے. جذبات نکھر جاتے ہیں اور قلب مطہر ہو جاتے ہیں. مطہرین کو چاہیے کہ نیت پاک رکھیں ورنہ کام بنتا نہیں یے. جس کا کام نہ بنے وہ گیا کام سے. جب سے اس جہان میں حسن آیا اور جلوہ گرہوا ہے. تب سے جہاں میں حسینوں کے متلاشی بنائے گئے ہیں. اک تلاش کرتا ہے حسین کو اور دوجا محسن ہوجاتا ہے. یہ محسن و متلاشی کی بات ہے. یہ قربت کی انتہا کی بات ہے کہ جس میں دوئی نہیں ہوتی کہ جس میں من و تو کی بحث نہیں ہوتی. یہ جذبات مصفی و مجلی ہوتے ہیں اور آیت زیتون دل میں ابھر آتی ہے. یہ زیتون کے بابرکت تیل سے آگ پکڑتی ہے اور دل کا لوح اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے. کون اس میں کود سکتا ہے؟  یہ عشق ہوتا ہے جو نار میں کود پڑتا ہے نار گلنار ہوتی ہے مگر کون جا سکتا ہے کہ درد کو ختم کرنے کے لیے درد جذب کرنا پڑتا ہے. جذبات پانے کے لیے جذبات قلم کربے پڑتے ہیں. قلم تلوار کی مانند ہر شے قلم کر دیتا ہے اور خالی دھڑ سے بسمل کا رقص ہوتا ہے بسمل دار پر رقص کرتا ہے اور جوش میں ہوش قائم رہتا ہے. یہی عین حیات ہے جو بعد ممات ہے

قصہ ‏گو ‏

قصہ گو چھیڑ رہا ہے قصہ مجھ میں اور میں لکھ رہی ہوں عشق کی کہانی . مقدس صحیفہ ہے جس کو لوح مبین سے مبارک دل میں اتارا گیا تھا اور اس کے جلوہ کو مخلوق آئی تھی. یہ نہ کہو کہ عشق مجذوب ہے بلکہ جس دل میں اترا ہے وہ مندوب رسول ہے. قسم اس رات کی جو سینوں میں قرار پکڑ لیتی ہے وہ عشق کی آگ ہے جس سے دل کے درد چھالے بدن کو دیکھنا محال ہوجاتا ہے. یہ آگ ان دیکھی ہے جس میں روح جل جل کے وہ خوشبو بکھیرتی ہے کہ روم روم سے یار   نکل آتا ہے اور یار اپنے  ذرے میں رونما ہوجاتا ہے .

جیسے اک مصحف تم میں ہے ویسے اک مصحف ہر آیت میں ہے. عشق دکھاتا ہے آیت آیت میں آیت ہے. یہ وہ ہاتھ ہے جسکو یدبیضاء کہا گیا ہے جس سے دل پر نوری ہالے وجود پکڑلیتے ہیں گویا دل برقی رو پکڑلیتے ہیں ... سب یک ٹک ہو کے تسبیح ھو کے پڑھنے لگتے ہے. کون کہتا ہے قران پاک میں عشق و معشوق کے قصے نہیں ہے. عشق کا قصہ اتنا مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل. یہ کہانی تو قرار پکڑی، جب آدم علیہ سلام کو جنت سے نکالا گیا تھا

وہ گریہ ء آدم جس کو دل میں محسوس کیا جاتا ہے وہ کیا ہے؟  عشق گریہ کے بنا نہیں ہوتا ہے. یہ دل روتا ہے دیدار و وصلت کو .....،  وہ جنت جہاں راحت و چین جذب  کی صورت سرائیت کیے دیتی ہے اور کیا تم نے نہیں دیکھا اک باپ،  بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دے ... وہ عشق تھا جس نے خوشبو سے پتا دیا، بیٹے کا وہ دنیا میں خاکی لبادے میں موجود ہے

عشق اک ماں کے سینے میں نمودار ہوتا ہے اور ماں بچے کے لیے روتی ہے جیسا گریہ یعقوب تھا تم نے سنا. کبھی گریہ یعقوب دیکھو اور دیکھو کتنی مائیں اس جہان میں اپنی قربانی سے زمانے کو سنوار رہی ہیں

عشق کو پڑھو تم تو یاد ہوگا جب باپ و بیٹا قربان ہونے مقتل کو پہنچتا ہے اور اک دنبہ نمودار ہوجاتا ہے. دیکھو تو تم اک طالب رہا دوجا مطلوب ہے

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں .....، یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

یہ عشق کا سارا کھیل ہے کہ جو ازل سے آزاد روحیں میں چلتا  آیا ہے جب ابراہیم علیہ سلام نے خدا کی کھوج کی اور کہا کہ خدا تو کیا چاند ہے؟  کیا تو سورج ہے؟  مظہر مظہر سے ہوتے وہ کہاں پہنچے... اللہ تک . ہر آزاد روح جو تلاش کرتی ہے خدا کو مظہر مظہر میں،  یہ عشق ہے ..

یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کہہ رہا کہ کہاں ہے تو مطلوب. اے مطلوب چل آ ... مطلوب کہ رہا ہے کہ طالب آ،  طالب آ،  طالب آ ... یہ شب بیداری کے قصے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جاگتے رہے اور حرا میں قائم رہے .. زملونی زملونی کہتے خشیت میں ڈوبتے ڈوبتے رہے یہ کیا تھا ..یہ عشق تھا
جب مومنین کی کھالیں قران کی خشیت سے کانپنے لگ جاتی ہیں اور وہ جذب ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو آیت کے نور سے مسلمان ہو جاتے ہیں، یہ جذب ہونا عشق ہے

عشق مجذوب ہونا مانگتا ہے عشق جذاب مانگتا یے ....، عشق حسین مانگتا ہے،  عشق حسن مانگتا ہے ...، عشق کلام الہی ہے ....یہ قلم سے چلتا سلسلہ ہے جس میں ارواح زیر دام ہوتے قربان ہو جاتی ہیں. یہ جان دینے کا نام ہے جب ہم نے پڑھا قرأت صحابہ کی گرم کوئلوں پر ... یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے جس میں جمال کی طالب ارواح اکٹھی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاز .. قسم اے دل..... تمام ارواح آج بھی جمع ہیں اسی گھڑی کو ہم دیکھتے ہیں ان کی کملی نے ایسی تمام ارواح کو اپنے کملی میں لے رکھا یے

لفظوں کے ہیر پھیر میں میرے دل کچھ نہیں. بندگی عشق ہے عبدیت عشق ہے  ..عبدیت یعنی خود نیاز کی انتہا میں ہونا اور خدا وہ ہے جو بے نیازی پر ہوتے اپنی مامتا کو لٹاتا ہے وہ ہے. لفظ عشق نہیں ہیں    روح عشق ہے عشق میِ روح جل جاتی ہے کپڑا جب تک نہ جلے عشق نہیِ ہوتا

کپڑا جلنا چاہیے اس لیے سورہ النور میں نور علی نور فرمایا ہے مرشد وہ نور ہے جو روح کے نور پر نور ہوجاتا ہے آئنے کو آئنہ نہ ملے آئنہ روتا ہے آئنہ چاہیے .. آئنے ہوتا ہے عشق ہوتا ہے....

آؤ ہم سب دعا مانگیں کہ ہمیں عشق سے نواز دے خدا...ہماری جھولی میں عشق کی وہ لازوال دولت رکھ کہ ہم تن من لٹا کے خدا کی گود میں سر چھپالیں کہ ہمیں بس خدا کافی ہے اللہ ھو الکافی اللہ ھو الشافی...خدا ماں کی لوری ہے. یہ جو مائیں پھرتی محبت بانٹتی ہیں بن عشق کے یہ قربان ہو سکتی ہیں؟ ان کی روح جل رہی ہوتی ہے ان کا درد مانگتا ہے اور درد اور.....،  درد کی دوا ہے درد....اے خدا ہمیں درد بے انتہا دے اور اتنا دے کہ درد نہ رہے اس درد میں یاد رہے تو اورکوئی نہ رہے کہ تو نے باقی رہنا ہے باقی سب کو فنا. اے خدا ہم کو فنا کردے کہ ہم فانی یے تو باقی. جب دل فنا ہو جاتا ہے تو دل کہتا ہے....، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ...یہ کلمہ ایسے دل میں قرار پکڑ جاتا ہے اور ہم کو خدا کے سوا کیا چاہیے  خدا کافی ہے

اضطراب*** ‏

بے چین ہے دل کیوں؟  یہ اضطراب کیوں ہے؟  رُخ تو مائل ہے، دل میں محسن بیٹھا ہے اور جزا نہیں محبت کا. اس سے پوچھنا کہ موجِ اضطراب مانند بحر تموج رکھتی ہے اور انتہا مانگتی ہے.  تو درد دے!  دے اور بے انتہا دے مگر ساتھ وہ دے جس کے لیے کاتب کو مکتوب لکھوا رہا ہے. یہ فاصلے حائل کیوں ہیں؟ یہ نقاط کیوں متصل نہیں ہورہے؟  تو نے کہا تھا کہ تو دے گا؟ تو نے تو کہا تھا تو نہیں چھوڑے گا!  تو نے تو کہا تھا کہ دائم ساتھ رکھے گا مگر یہ جو دوری ہے یہ تو اضطراب ہے ـ اے برق نمودار ہو!  اے شعلہ جلا دے!  اے الوہیت کے چراغ،  ملوہیت کی روشنی سے نواز ... تو نے دینا ہے تو نے تو کہا تھا تو دے گا 
خاموشی ہے اور رات سوتی ہے 
تو نے تو کہا تھا تو تو دے گا 

پھر سیم و زر کے انبار کہاں ہیں؟  پھر وہ رات کے عروج پر بام و در سے کھلی روشنی کہاں ہے ـ میرا گنبد افلاک میں کھوگیا ہے ـ یہ معبد بدن میں کس کی آیت ہے؟  یہ موج حق ہے جو سینے میں پیوست ہے 

سو جاؤ!  سو جاؤ!  سو جاؤ!  
ورنہ زار زار رو!  زار زار رو!  
اس نے بلایا نہیں ہم جاتے نہیں 
وہ بلائے گا تو ہم جائیں گے 

اک اسم مانند فرشتہ راہ میں ہے.  اک اسم مانند آئنہ نمود میں ہے. اس نے کہا تھا دید کریں گے. کرو گے پھر تم دید ... چلو پھر وادی ء بطحا میں چلیں. چلو پھر النمل کو پڑھیں. اور دیکھو چیونٹی کا سینہ زمین پر کیسا بھاری پڑا تھا.  چلو ہد ہد سے پوچھیں کہ افلاک سے زمین تلک کس کی شہنشاہی ہے ..چلو چلو ہم خود کن پڑھ کے پھونک دیں تن من میں "اللہ " جان آئے گی ہم میں.  جی اٹھیں گے ہم.  مردہ دل کو چاہیے کیا؟ کیا نہ چاہیے؟  وہ دے گا روشنی سے منور سجدہ. سجدہ پڑا رہے گا اور ہالہ نور سفر کرے گا. یہ مقام حــــم کب کھلے گا. یہ اسم طلحہ ہے. یہ مجاور اسماء کے فرشتے ہیں. دل میں مزار ہے جس میں نورانی مصحف کو پڑھنے والی کنجیاں ہیں اور مطہرین ان کنجیوں کو کھول سکتے. چلو " اسم کن " سے "لفظ " اللہ " کو پھونک دیں. یکمشت سب خود کھل جائے گا. تمام اسماء کی مجال نہ ہوگی. ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے .... صاحب قران وہی ہوتے ہیں!  قاری ء قران وہی ہوتے ہیں 

اے خدا!  کتنی دیر؟  یہاں سانس کم ہیں،  کام زیادہ ہیں. اے خدا بلا لے اور کاتب کو پکڑا دے وہ تمام اسماء جس کو بوقت نفخ دیا تھا. نائب کو چاہیے کیا؟  نیابت ادھوری ہے!  انسان ادھورا ہے. تجھ کو اللہ کب گنوارا ہے کہ نائب ادھورا رہے.  تو نے تو کہا تھا تو اپنا نور مکمل کرتا ہے. تو نے تو کہا ہے کہ نور مکمل ہوگا چاہے جتنی کوشش کوئ کرلے. تو نے کہا ہے کہ اکملت اکملت اکملت. جب تو نے مکمل کردیا تو امتی کیسے رہ سکتے؟  یہ تو ہمارے لیے ہے نا؟  ہے نا؟  ہے نا؟  تو دے دے اللہ!  اس سے پہلے سانس گھٹ کے مر جائے!  مرض بڑھتا جائے گا دوا کب ہوگا. تو نے کہا تھا کہ تو ملے گا. تو نے کہا تھا تجھ کو مخلوق سے محبت ہے. تو محبت والا ہے. تو پیار والا ہے. تو مانگے ہیں ہم اور مانگی جائیں گی کہ بنا لیے ہم کیسے جائیں؟  بتا؟  بتا؟  بتا نا؟

رنگساز ‏

رنگ والے نے بلایا ہے. رنگ والے سے کہو کہ اللہ ھو. اللہ ھو. اللہ ھو 

تم اللہ، وہ اللہ،  یہ اللہ،  ادھر اللہ،  اُدھر اللہ 
واللہ،  واللہ ہر جگہ اللہ،  واللہ واللہ اللہ اللہ  
یہ اللہ میرا، وہ اللہ اسکا،  نہیں سب کا ہے 
کہو اللہ، کہو اللہ،  اللہ والے سنیں گے ھو ھو 

تو خود ہے!  تو خود ہے!  تو خود مصور ہے!  تو خود ترتیب ساز ہے. تو چشم بصیر سے دیکھے اور کوئ جگہ ایسی نہ ہو جہاں چھپ نہ سکے ہم. ہم چھپ نہیں سکتا وہ دیکھے اگر تو تاب لاؤ گے؟  لاؤ گے تاب؟  آب و تاب میں حساب نہ  رکھو ورنہ ہو جاؤ گے لاجواب. یہ شام گلاب ہے. یہ شام ہے مست ولائے حیدری. منم حیدری! ہم حیدری ہیں. ہم غلامِ علی ہیں ... ہم غلام پنجتن پاک ہیں. بے حساب درود اعلی ہستیوں پر. یہ شمار نہیں کرتے دینے میں. مانگ لیتے ہیں ہم ان سے ذات اپنی ... ذات وہی ہے جو ساڈی ذات ہے. اسم ذات ہے!  حق ذات ہے!  جس میں شاہ عباس ہے. جس میں ریشمی رومال ہے جس میں ساجد بھی اک ہے وہی مسجود ہے. فرق نہیں. دوئ نہیں تو نماز ہوئ کیا؟  بس جانو اور کہو نہیں جانا. معلوم نہیں ہے. ہم نہیں جانتے 
کیف ھالک 
کہنا اچھا ہے سب 
یوم تکملو 
کہو کیا پتا کیا خبر 
بس کہو اللہ اللہ اللہ 
اللہ اللہ کہنے والا ساز اک 
اللہ اللہ کہنے والی بات اک 
اللہ اللہ کہنے والی آگ اک 
اے برق نسیم!  کدھر ہے!

بس ہم مرجانا چاہیں پر موت نہ آئی. ہائے!  کب آئے گی موت اور کب وطن واپسی ہوگی کہ پھر مکان کی قیود نہ ہوں گی. لباس پہنو یا اتارو اپنی مرضی. بس دوری کا سوال نہ ہوگا  بس اک بات ہوگی. وہ ہوگا وہ ہوگا وہ وہ ہوگا ہم نہیں ہوں گے ہم کدھر ہوں گے؟  گم گم گم گم گم ہم نقطے میں گم ہوں گے. ہم محور ہوں گے ہم گردش میں ہوں گے. ہم  رقص ہوں گے. ہم اپنا تماشا دیکھیں گے اور کہیں گے ھو ھو ھو ھو ھو

دعا ‏

دعا ہے کہ دعا رہے یہی.  جلتا رہے دل یونہی یونہی.  سچ کی رعنائی ملے یونہی.  افق کے ماتھے پر شمس ملے یونہی.  رنگ ملنے سے اچھا ہے رنگ نکل آئے.  چشمے اُبل پڑیں ... کچھ پتھر ایسے ہیں جن سے چشمے ابل پڑتے ہیں. کچھ ایسے جن کو برق اچک لیتی ہے. اک نے فیض دینا ہوتا ہے دوسرے نے لاڈ لینے ہوتے ہیں. پتھر کوئ ہوتا نہیں ہوتا جب تک پانی نہ ملے یا برق نہ مل جائے. یہ ہنگام شوق دیکھتا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ رات ہے اس میں بیٹھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جواب ہے سوال میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ نفس ہے اور نفس میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ روح ہے اور الجھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جسم کی قید نہیں ہے،  پرواز کو سوچی جائے گا؟  آگے بڑھ!  یہ طائر بیٹھا ہے کیا بیٹھا رہے گا؟  آگے بڑھ. یہ سمت ہے، وہ سمت ہے اور تو سمت کا تعین میں رہے گا؟  آگے بڑھ؟  یہ سجدہ ہے اور تو سوچے گا سجدہ کس نے کیا؟  آگے بڑھ؟  

اے حضرت انسان!  تجھے ترے رب نے عزت بخشی مگر تو نے تو رب سے بے نیازی دکھا دی جبکہ بے نیازی تواس کی شان یے. اے اشرف المخلوقات! تو نے سوچا نہیں کہ تجھے احسن التقویم کیوں بنایا؟ تو فکر کیوں نہیں کرتا؟ تو فکرکرے تو مجھ تک آ پہنچے مگر تجھے اپنی آیتوں کی لگی یے 

اے حضرت انسان. تجھے نسیان کھا جائے گا. تجھ کو ذمہ داری سے بات سننی چاہیے تاکہ تونفس پر رہنما ہو جا. تجھے لاج رکھنی چاہیے اس خلافت کی جو آدم کو ملی. آدم سے آگے سینہ بہ سینہ منتقل ہوئ .... یہ انبیاء کرام،  یہ رسول مقام بہ مقام زینہ بہ زینہ چلے اور زینہ کی انتہا معراج .... ہم نے دی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اے انسان ...جب ترا ذکر کہیں نہیں تھا تب بھی میں تھا. تب تو نیست نابود ہوگا تو کس کا ذکر باقی رہے گا ... جس کو سمجھ لگے گی دوئ نہیِ کہیں وہ جانے گا جنت ودوذخ تو تضاد ہیں. خدا تو ضدا سے مبرا یے وہ نہ شرقی نہ غربی ہے. اس کا چراغ الوہی جل رہا ہے. جل رہا ہے  جل رہا ہے. جل رہا ہے.

خدا ‏کہاں ‏کہاں ‏ہے ‏! ‏***

عشق آسمان سے جب اُترا، جتنے دلوں پر اترا، وہ محبوب ہوگئے. باقی دلوں نے عشاق کے در و دیوار میں چھپے سیپوں کو ڈھونڈنے کی خواہش میں زندگی گزار دی. 

محبت آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پَر اُترتا ہے. محبت صدق دل میں لاتا ہے یا صادق کو لقب عطا کرتا ہے.

اس میں  جسم زمین پر ہے 
روح گردش میں میری، آنکھ میں نمی،
زمین وضو میں 

تب سب لفظ بھول گئے
عشق، عشق 
دل پکارتا رہتا ہے
عشق کسی روپ میں.صدیوں کے بعد نمودار ہوتا ہے
تن، من کی لاگی میں لگن بڑھانے کو ...
.کوئی جان سکتا ہے جب روح  عشق کی.تسبیح پڑھے  تو عالم یک ٹک سو ہو کے اس پکار کو سنتا ہے.

زندگی، بندگی میں ..
.اے دل ، بتا کیسے سجدہ ادا کریں؟ 
اے دل، اے عشق!  بَتا کیسے حق ادا کریں؟ 
اے دل وضو کی جاری نہر میں خمِ دل سے کچھ نکلا. پتا ہے کیا نکلا؟ 
آیتِ کوثر 

سسکیاں،  آہوں سے پرے عشق ہے جلن اور سوز ...سوزش ہجر سے نکلیں سسکیاں اور دل کرے ہائے ہائے


میرے پاؤں کی  زنجیرعشق نے تھام رکھی ہے اور مجھے حکم دیے جائے کہ چل جانب منزل  میں کہتی جارہی ہوں منزل تو ہی تو ہے 

تو نے تھام مجھے رکھا ہے اور میں نے خود میں اک یہی آیت پائی

جب بھی من میں جھانکا، اک نَیا جلوہ پایا. تری ہستی میں عالم کی نمود ہے اور ساجد کے ہزار سجدے اور بیخودی کا اک سجدہ برابر نہیں. 

اس رقص میں بسمل کی تڑپ ہوتی ہے ، اسکی صدا میں کوئل کی چہک ہوتی ، پھر  لفظ میں روشنی ہوتے ہیں ...  
من و تو سے  ذات پرے ہوتی ہے 

تو رقص میں ہے، تو ہی کوئل کی صدا ہے ...

عشق زَمین پر اُترا ہے،  اور چھپ گیا ہے.  جب اسے اُسے دیکھا گیا تو  وہ اک درخت کی اوٹ میں تھا.  لکا چھپی کی رسم پرانی ہے اور عشق ازل سے اَلوہیت کا ساز ہے 

شجر کے پتے پتے کا نغمہ سنا تھا. وہ تکبیریں "اللہ اکبر، اللہ اکبر" تھیں ..عشق کا جلوہ عالم ہر سو بکھر کے "محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم" میں سمٹ گیا 

.. اے مری راہ کے خورشید. سلام. اے عالی ہست ...جلوہ ہزار اک میں   جامع ہو گیا اوریہ خوش نصیبی کہ اس مبارک ہاتھ نے تھام لیا ہے.

لمحہ نَہیں ایسا کوئی، جس میں وہ نہیں. لمحہ ہی وہ  ہے، لمحہ کچھ بھی نَہیں ...

غیب سے  ہاتھ نَمودار ہوا،  اسکی جھلک  میں خُدا کی بات تھی،  
وہ ہاتھ جو آیتِ کوثر کی جاری نہر ہے 
وہ ہاتھ جس کی تقدیس کو سلام صبح شام خود کریں   

وہ مثلِ موسی بن کے روشن ہوا... 
یہ یدبیضاء،
جس ے سحر کے سارے اندھیرے ختم ہوئے.

عشق اور میں  اک کشتی میں سوار تھے، جب بحر کی نمی کو خشکی سے چاک کیا گیا تھا،  تو اسکے وجود میں سلیمانی مہک نے مسحور کردیا تھا ..

کیٹس نے خدا کو بُلبل میں، شیکسپیر نے پراسراریت میں، شیلے نے پانی، ہوا میں،  ورڈورتھ نے پتے بوٹے میں،   غالب نے دستِ غیب میں،  اقبال نے رومی میں  پایا اور میں نے خُدا کو تجھ میں پایا ....

اک جانب جنت، اک جانب دوذخ اور عاشق رہ پر چلے جائے  ...

نغمہ ء گُل ہے صدا تری 
جذب ہوتی ہے کائنات میری. 
تو تبحر علم اور میں خالی کاسہ ...
فقیر بن کے کھڑا کوئ در پہ ترے ...

راز الف کیا ہے،  صیغہ ء میم کیا ہے، لام میں چھپا راز اسکو جان لیا اور  پہچان لیا. امر کے نقارے سے پہلے، نگاہ کا سجدہ اور وہ  رحم بھری نگاہ سے ...  ...

عشق کے شین، قاف میں الجھ کے عین سے گئے تھے،  وہ جو یقین کی راہ پر آزماگئے تھے .... 
فرعون بن کے ندیاں بہائیں تھیں، 
چنگیز بن کے نیل کو سرخ کردیا،  
دجلہ و فرات لہو لہو تھے ... 
خدا کی رونمائی کے جلوے تھے 
دیکھا گیا تھا، جب آگ  گلنار ہوئی تھی
تو آیت کوثر بھی اک نشانی ہوئی

  

راکھ ہوتی اناؤں کو جب خاک میں ملتے دیکھا تھا،  مریم بی بی علیہ سلام سے روح اللہ کی شاخ کو پنپتے دیکھا تھا،  
جب درد سے وجود لبریز ہوا تھا، 
اس درد میں خدا کی مامتا ابھرتے دیکھا تھا ... 
وہ جو تقسیم الفت ہے..،  وہ یہیں سے ہے ... جبفرشتہ وحی لے کے آیا مادر مریم کے پاس آیا، 
تب اس روح مقدس میں نشانی تھی.... 
انا اعطینک الکوثر

قم باذن کی صدا کائنات نے سنی 
اک وجود نے خود کو زندہ ہوتے دیکھا ...
اے مردہ دلوں کی مسیحا، سلام ... 
جب سلمان فارس سے تلاش کو نکلے تھے،  
اس تڑپ کی تپش میں جلوے تھے 
انا اعطینک الکوثر 

تسبیح میں جسطرح اک دھاگے سے بنتی ہے، مری روح کے دانوں کا وہ اک دھاگہ یہ  ہی تو ہے!  

میں نے پہاڑوں میں اس آیت کو حرکت میں پایا 
ہر دل میں اس آیت کا نقش پایا 
جہان کو اس آیت کے گرد رقص میں پایا 
انا اعطینک الکوثر

جناب ادھم کو غیب کی صدا نے تخت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، 
اس صدا میں، میں نے یہ آیت سنی  تھی
زندگی اک گِل، کھنکھناتی مٹی سے وجود کہاں آئی ہے. 
یہ تو الواحد کے نشان تھے
یہی نشان تو روح میں  پڑچکے ہیں  

آدم صورت خدا ہے اور صورت صورت میں جلوہ ہے ...وہ صورت  نگاہوں میں ایسے ابھرے
جیسے نور کی  ضیا پوشی ہے ...
داؤدی نغمہ کی سی  دل میں درد کی مٹھاس...
یہ آواز  وہ جگاتا ہے 
جو عشق کا ساز بناتا ہے 

.محبوب کے چہار سُو جلوے بکھرے ہیں، کبھی دریا، کبھی  جنگل، کبھی پربت تو کبھی فلک، کبھی رنگ میں تو کبھی سنگ میں، کبھی آگ تو کبھی پانی، کبھی سورج تو کبھی چاند تو کبھی چاندنی میں پھیلتی  کثرت میں وحدت ... محبوب کے سو روپ ہیں اور ہر روپ میں دلنشین مہک لیے ہے ..کبھی  وہ  جھلک دکھلا کے چھپ جاتا ہے تو کبھی پتھر میں ہل ہل کے چونکا دیتا ہے. کائنات کی کل کثرت اس کی وحدت ہے

وہ مظہر مظہر میں آیت ہے 
مظہر مظہر اس کا شاہد ہے 
اللہ ھو  

. جبین  جھکتی ہے، جب جد کی تخلیق کو دیکھے جائے.  صدر میں صدر تلک کی فصل گل ہے،  لالہ ہے تو کَہیں عنبر ہے .... 

صورت میں آدم،  سیرت میں احمد میں، حسن میں حَسن،  کلام میں حسینیت لیے  عشق  سامنے آیا 
عشق کوکو اک جا یکجا دیکھا
دل میں یکجائی کے سارے عالم بکھر گئے  
محبوب سامنے مسکراتے تکی جائے

زندگی کی معنویت سے رنگ نکال دیے جائیں تو رنگ اک بچ جاتا ہے اور رنگ رنگ میں بے رنگی  دکھ جاتی ہے ..

یقین نہ تھا دل میں 
پیمان کو مانتا نہ دل 
کسی دوست کی تلاش میں دل
اور دوست کی تلاش نے چکر پر چکر دیے ہیں 
درد میں رقص در رقص کیے 
بانسری ھو والی بجتی رہی 
اللہ ہے،  آواز آتی رہی 
اللہ کہاں،  خلجان میں جاتی رہی 
اللہ اک ہے،  کیسے ہے 
اللہ مظہر مظہر میں، یہی کہتی رہی 
پھر جب دل ٹوٹ سا گیا 
تو چاند نے گود میں لیا 
خورشید نے جیسے دلاسہ دیا
امید کا اک کاسہ دیا 
رنگ مجھ پر  ڈالے گئے 
چنر محبوب کی پہنائی گئی 
مجھے نشان خدا ملے 
جانے کتنے نشانوں میں عیاں نکلا 
ہر جگہ میں نہاں نکلا 
اندر کے خانوں میں 
باہر کے  آئنوں میں 
خدا خدا کی صدا ہے 
ہر شے کی تسبیح اللہ اللہ ہے 
رک رک کے سنتی ہے 
خوشبو میں اس کی نشانی 
جب بھی خوشبو کو سونگھا تو گم خود کو پایا
مہک خراماں خراماں چلتی رہی 
میں ساکن ساکن رہی 
یہی خدا ہے،وہ جو اک خیال ہے 

خدا یہی تھا جس نے جان دی تھی مجھے 
خدا یہی تھا جس نے مجھے پہچان دی 
عشق کی نگہ خیر سے دل میں حیات پذیر ہوئی ہے 
گویا کائنات کی بود،  نہ بود کی بات ہے 
شاہد،  نہ شہود کی بات ہے 
فنا نہ بقا کی بات ہے 
خدا  ابتدا ہے،  
خدا انتہا ہے،  
خدا منصور کا نعرہ تھا 
نعرہ مگر  وحدت سے پرے تھا 
کثرت کا دعوی کیسے جامع ہوتا 
گاہ میں فلک میں، گاہ میں سمندر میں 
کائنات کا ردھم سمجھ کوئے
برف پگھلتی دیکھے کوئی
صدائے جرس سنائی کہاں دی؟  
جو نہ سنا گیا،   وہ سننا ہے 
جو نہ دکھے،  وہ دیکھتا ہے 
جو نہ بولا گیا،   وہ بولنا ہے 
پھر وہ ہم کلام  ہوتا ہے 
پھر وہ دلدار کی سنتا.ہے

سن وہ صدا جو کان سے کان تک آتی ہے 
سن وہ صدا جو دل سے  جان تک آتی ہے 
دیکھ وہ  سکوت جس میں  شور میں پنہاں ہے 
دیکھ وہ شور جس کے سکوت میں وہی عیاں یے 
عدم سے لایا گیا ہے 
لباس وجودیت دیا گیا ہے
رہتی ہے ساز نگر میں خاموشی کی صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہے 
اللہ باقی ہے 
باقی ہے کس میں 
وہی تو ہر شے میں 
جانا اسے یار کی صحبت میں 
سادہ ہے وہ،  سچ ہے،  حق ہے 
صدائے انا الاکبر سنائی دیتی ہے
جب آیت کوثر دکھائی دیتی ہے

سنگ سنگ میں رنگ ہے 
رنگ برنگ جس کی ذات ہے 
ذات میں وہ بلند ہے 
وہ العالی کی مثال کی ہے

دوا کام نہ آئے گی 
درد بڑھ جائے گا 
روگ لگ جائے گا 
عشق ہو جائے گا 
عشق میں نعرہ لگ جائے گا 
جذب وہ ہوگا،  جس کا جذاب ہوگا 
مومن وہ ہوگا، جس کا یقین پاس ہوگا 
ستم کے سو سوال پاس رکھے ہیں 
جدائی بس اک جواب ہوگا 
خدا سب مصلحتوں سے پرے ہے 
خدا عشق میں ظاہر ہے 
عشق کی نمود اور نارِ گلنار
آگ سے دل فگار ہے 
رات جیسے اشکوں کا بار ہے 
دل شوریدہ کا سر دیکھتے ہیں 

موجود ہے لہر لہر میں 
موجود ہے دھارے دھارے میں 
موجود ہے پربت پربت میں 
موجود ہے جمتی کائی میں 
موجود ہے پگھلتی برف میں 
موجود ہے بنتی بھاپ میں 
موجود ہے برستے بادل میں 
موجود ہے بہتی گنگا میں 
موجود ہے راگ میں سرگم میں

موجود ہے ذات پات میں 
موجود ہے خیال خیال میں 
خدا خیال ہے 
میرا خیال ہے 
ترا خیال ہے 
خیال وہم سے بالاتر ہے 
مرا ہونے ترا ہونے،  شک سے پرے ہے 
عدم سے خیال آیا یے 
وہ مجھ میں سمایا ہے 
وہ شہ رگ سے قریب ہے 

راگ ہے نہ صدا ہے 
وجود کی بہتی گنگا ہے 
ھو ھو ھو ھو کہے جائے 
ھو میں کون ہے 
سبزے سبزے میں، 
گلی گلی میں، 
مظہر مظہر میں کون یے 
خیال تھی یہ کائنات 
اس نے سوچا، بس سوچنے کی دیر تھی
خیال مجسم ہوگیا 

بس سوچنے کی دیر تھی 
خیال نے نمود پکّڑی 
وجود نے وہ رو  پکڑی 
ہر شے نے برقی رو پکڑی 
اسکی لہریں لہریں ہر شے میں بہنے لگیں 
ہم وجود دیکھنے لگے 
ہم موجود نہ تھے 
ہم خاکی نہ تھے 
اسکو لطف نہ ملا 
پھر کیا ہوا،  
خیال کو کن سے خاک میں ملا دیا 
وجود کو اضطراب میں مبتلا کیا 
خیال کے ہزار ہا ٹکرے ہوتے گئے
میں اور تو بنتے گئے

یہ دنیا میری تیری کہانی ہے 
خیال میں دنیا سجانی ہے 
خیال میں رہنا ہے،  
خیال میں جینا ہے،  
خدا خیال ہے 
ہاں خدا خیال کی طاقت کی پیچھے ہے 
دل میں اسکی طاقت نے وجود پکڑا ہے 
جیسے بیج نے وجود کو ظاہر کیا 
پھول کی خوشبو پھیلنے لگی ہے 
زندگی رنگ رنگ مہکنے لگی یے 
رات کے آنگن میں سو کلیاں ہیں 
دل میں بہتی سو ندیاں ہیں 
ہر ندی کی صدا میں یہی سنا ہے 

اللہ ..ہے،  اللہ،  ہے،  اللہ ... ہے،  اللہ ..ہے،  اللہ 
اللہ ہے ..اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے 

رقص میں روح ہے 
جیسے لٹو کوئی روبرو ہے 
چکر کم نہیں ہوتے ہیں 
عکس پیکر میں ڈھلتے جاتے ہیں 
سائے وجود میں ڈھلتے ہیں 
نور ہی نور ہے 
نور ولا میں نور علی ہے 
نور علی میں چشم نم ہے 
چشم نمی دل کی کہانی ہے 
کہانی بنتی جارہی، 

خُدا درد ہے،
نوح کا نوحہ ہے،  
جب کشتی کنارے لگی تھی،
چشم تر سے خُدا کا نشان ملا،  
خدا ضد میں موجود  ہے،  
جیسے نوح کا کنبہ ہوا تھا اندھا،
جیسے نمرود کے تیر بے نشان ہوئے،
جیسے فرعون کو تَری،  خشکی لے ڈوبی ...
خدا، جھوٹی ضدوں کی ضد میں تھا،  
تیرگی کا لبادہ جب الٹا کیا 
خدا روشن ہوا تھا .... 

اضداد سے کائنات کا چلتا سلسلہ 
ابلیس کا تکبر،  آدم کی توبہ 
نمی ہستم سے کجا رفتم کا سفر 
من دانم کا دعوی جس نے کیا، تباہ ہوا 
خدا اس تباہی سے بڑی قوت ہے 
حسن بن صباح کی جنت میں،  
غلمان، حوروں میں گھرے میں،
انسان نما بندروں میں،  
بظاہر روشن مگر سیاہی سیاہی میں،
قلعہ الموت میں خواب و خیال کی قوت میں 
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 
خدا ضد میں ظاہر تھا 
خدا ضد میں ظاہر ہے 
پہلے جو آدم میں مجلی ہوا 
منتہائے نور محمد میں ہوئی
اُس ماہی آب میں
جس میں یونس نے گھر گئے،
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے،

جہل کی جہالت جب بڑھ گئی تھی 
جناب عمر کی جلالت میں نمود ہوا 
فکر میں، افکار میں،  اسرار میں ...
جناب بوذر کی گواہی میں  
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے

زہے نصیب!  خدا سرناموں میں موجود ہے 
زہے نصیب!  خدا رہنماؤں کی روشنی میں یے 
زہے نصیب! خدا محبتوں کا امین ہے 
زہے نصیب!  خدا راز کی سرزمین یے 
خدا ضد کی سرزمین میں شاعروِں کا یاس ہے 

رنگین ہوتی داستانوں میں 
آسمان کے سویروں میں 
رات کی تیرگی میں 
سرمدی دھوئیں میں 
راکھ ہوتی خواہشوں میں 
واحد خیال موجود ہوتا ہے 
جب سیف الملوک نے شاہی کا کاسہ پھینکا تھا 
بدیع الجمال کے حسن میں کون تھا؟  
واحد خیال کائنات کا حسن ہے
واحد خیال حسن میں پنہاں ہے 
واحد خیال حسن یوسف میں تھا 
بازار حسن میں غلام بنا کے لائے گئے 
شاہ مصر خریدار ہوئے 
غلام سے شاہ مصر جب ہوئے 
واحد خیال کی شاہی تھی
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 

درود پڑھنے میں 
درود بانٹنے سے
درود میں جھانکنے سے 
درود کی  خیالات میں 
خدا موجود ہے 
خدا کا ذکر درود ہے 
فاذکرونی اذکرکم 
اس ذکر میں رب شامل ہے 
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے 
اللہ ھو،  اللہ ھو،  اللہ ھو، اللہ ھو 
نبی کی سنت میں خدا،
خدا کی سنت میں نبی،  
پورا کلمہ دو سنتوں میں موجود 
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

خدا تلاش میں مضمر ہے،  
خدا جستجو میں ہے،  
جستجو ڈھلمل یقین کو معصم کرتی ہے 
مٹی کو آہن کرتی ہے 
میں نے اپنے محبوب کی تلاش میں 
اسکی جستجو میں،  سسکیوں میں،  
دل میں بستے اجیاروں میں 
آہن ہوتے یقین میں دیکھا ہے 
محبوب جس کو میں کہتی ہوں 
وہ پنجتن پاک کی خوشبو ہے 
میری نہ بود میں انکی بود ہے 
مری بے نشانی میں انکے نشان ہے 
درود مسیحاؤں  کے مسیحا پر 
درود ذات علی پر 
درود حسنین پر 
درود خاتون جنت پر 

قران صحیفہ ہے 
مرشد کا سینہ قران ہے
قران پڑھنا اصل ایقان ہے 
پہچان کا سلیقہ آتا جاتا ہے 
دل جب دل میں فنا ہوتا جاتاہے 

 الم سے والناس کی داستان بتائی جاتی ہے 
رازوں کے صیغے کھولے جاتے ہیں 
 عرش پر لوح و قلم کی کنجیاں  
الم کی آیت 

تو دل کہتا ہے 
خدا ہادی کا سینہ ہے 
نور کا پراسرار گنجینہ ہے 
گاہ میں الم،  گاہ میں طسم 
گاہ میں حم،  گاہ میں یسین 
کھلتے جاتے ہیں اسرار ہے 
الرحمان کی سمجھ آتی ہے 
الرحیم سے شروعات ہوتی ہے
بسمل کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے 
خدا کی پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے

 ختم نہیں ہوتے جذبات 
ختم کیسے ہوں الفاظ 
لامتناہی سلسلوں میں 
چلتی تلواروں  کی ضربوں میں 
قم باذن کی داستانوں میں،  
رقم ہوتی داستانوں میں 
خدا موجود ہے 
شمس کی کھال کھینچی گئی تھی 
یہ کس نے سوچا تھا 
سورج زمین کو سجدہ کرے گا 
قم باذن اللہ،  سے قم باذن کا تھا سفر 
سزا کے بعد  عطا کی ادا 
قربان ہوگئے لوگ ادائے شمس 
ملتان کی گرمی میں موجود ہے 
کون موجود ہے؟  
آیتِ الہی  

شمس رومی کا منتظر رہا 
رومی درس شرع میں محو رہا 
لفظ خالی تھے عشق سے،
خدا کے نشان کو کیا پاتے!  
شمس نے رومی کو پایا 
عشق کا ہنر سکھایا 
لا الہ سے الا اللہ کا.سفر کرایا 
اک پل میں کائنات کے ٹکرے ہوئے 
نعرے میں ضرب حق تھی 
عشق اک حقیقت ہے 
پاک دلوں پر اترتا ہے 
آسمانی صحیفہ جب اترا دل پر 
مثنوی لکھی گئی تھی ... 
شمس کو رومی نے لکھا تھا 
خدا کا خیال ظاہر ہوا 
خدا موجود ہے

 خدا آتش عشق ہے 
سوز ہجر ہے 
شوق وصل ہے 
دام موت ہے 
خدا کے سو روپ ہیں 
پانی آنکھ سے بہتا ہے 
خدا دل میں اترتا ہے 
خدائی چار سو ہے 
دکھائی دے وہی ہر جا،  ہر سو 
کو بہ کو یہ رشنائی ہے 
خدا حق کی گواہی ہے  
خدا ظاہر جا بجا رہا ہے 
خدا ہر جگہ موجود رہا ہے  
خدا تھا 
خدا ہے 
خدا ہر جانب یے

خدا ماں کی لوری ہے 
غنود کا درس دیتی ماں  کی صدا میں کون ہے؟
خدا ہے 
جب تک موت نہ ہوگی 
زندہ نہ ہوں گے 
فنا کی لذت وصال ملے
مجھے عشق میں کمال ملے
وہ روشنی لازوال ملے 
چمکے جس سے سینہ 
لکھوں روز و شبینہ 
چڑھوں زینہ بہ زینہ 
آئے بندگی کا قرینہ 

 

بسم اللہ بسم اللہ بسم اللہ 
اسم اللہ سے سفر کی ابتدا ہے 
جبین جھکی ہے، ساکن سجدہ ہے 
لہو صامت ہے، دل شاہد ہے 
خدا دل بن کے دھڑک رہا ہے 
بانسری کی صدا سنائی دیتی ہے 
بانگ مرغ میں سحر دکھائی دیتی ہے 
نہیں بنائی کائنات میں کوئی شے
 مگر جوڑے جوڑے 
جھوٹ کا سچ  سے
زمین کا فلک سے 
پربت کا سمندر سے
شاہد کا شہید سے 
شہد کا کڑواہٹ سے 
بینا کا نابینا سے 
عاشق کا معشوق سے 
مدار میں رواں ہرشے کے دائرے ہیں 
نہیں لیل نہار سے آگے
نہیں نہار لیل سے آگے 
شمس و قمر کی گواہی 
دینے طلعت آئی ہے
درد ہے،  درد میں خدا ہے

تن میں سرد لہریں ہیں
فاراں سے چشمے پھوٹے ہیں 
اسم حرا سے لکھے ناطے ہیں 
لطف درد کے واسطے ،
دوا سے چھوڑے ناطے،
مرگ زیست کے مرحلے ہیں 
درد کے نئے ساز نے کوئ دوا دی 
یکجائی اچھی ہے،
  دوئی جھوٹی ہے 

دل کو رکھا گیا زمین و فلک کے مابین 
سینہ ہے، پتھر  نہ تھا 
بہنے لگا اک چشمہ 
جھوٹ کو زوال ہے 
حق لازوال ہے 

شوق جلا رہا ہے
 جیسے شمع گھلتی ہے، 
جیسے پروانہ آگ میں جل جاتا ہے، 
جیسے پتیاں بکھر جاتی ہیں، 
خوشبو پھیل جاتی ہے، 
 جیسے باد کے جھونکے چھوتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں، 
بکھرنے، جڑنے کے نشان لیے ہوئے  
آنکھ وضو میں ہے، کس کا گداز ہے؟  
یہ کیسا مقام ہے؟  
یہ کیسا حال ہے؟  
دل میں کیسا بھونچال ہے؟  
رنگ بکھر رہے ہیں 
ھو ھو ھو کی صدا ہے 

خرد سے ایسے مقام کہاں آتے ہیں 
لا میں فنا کو دوام کہاں آتے ہیں 
جو نفی میں گم رہیں
 ان پر اثبات کے مقام کہاں آتے ہیں

آخرش ‏! ‏تنہائی ‏! ‏

آخرش!  تنہائی سے یاری نبھانی ہے وگرنہ قلت مولا کہا اور اثر نہ ہوا. میری جان!  
میرے دِل!  
تجھ پر میری حقایت کا اثر ہونا چاہیے 
تو میرا قلم ہے اور کتاب قلم سے وجود میں آتی ہے. آسمانی مصحف تک رسائی پاک دل کرتے ہیں لایمسہ  الا مطھرون کی مثال جب آنکھ وضو کرے تو سمجھ لے، میری جان!  تری رسائی ہے!  تو جان لے کہ شوقِ رقیب میں رقابت کچھ نہیں کہ شوق میں رقیب ہی حبیب ہے  حبیب قریب ہے. نصیب والے نے برسایا مگر کھایا سب نے. دینے والے ہاتھ اچھے،  سو دینے والا ہاتھ ہو جا!  نہ جھڑکی مثال دے، نہ وضو کے نین دکھا،  محرم راز بن. طریقہ یہی ہے ساتھ رہنے کا وگرنہ لازمان و لامکان کے دائرے تحریک نہ پکڑ سکیں گے. واعتصمو بحبل اللہ ...یہ محبت کی رسی ہے، محبت وہ بانٹتا ہے جس کو رحمت ملتی ہے. رحمت بانٹنے والا در تو اک ہے. تو میری جان!  جب اس کا نام لے تو درود پڑھ ... درود ایسا کہ روبرو ہو. وہ گھنگھریالے سے بال جس کی مثال رات نے لی سورج کا چھپنا رات ہے اور روشنی تو نکلتی ہے درز درز دندانِ مبارک سے گویا بقعہ نور ہو. وہ نور ایسا کہ دل میں چشمہ ابل پڑے اور چشمے سے چشمات کے لامتناہی سلاسل. یہ وہ ہیں جن کے لبِ یاقوت سے گلاب کی پتی مثال لی،  جن کی مسکراہٹ سے ہوا کھلکھلائی تو باد بن گئی. وہ دل کے کاخ و کو کے شہنشاہ ہیں اور ہم شاہ کے غلام ہیں. شاہ حکم کیجیے!  شاہ کے سامنے مجال کیا کہ گویائی کا سکتہ ٹوٹے،  یہ رعبِ حسن کہ حاش للہ تو نکلے مگر ہاتھ کے بجائے روح ٹکرے ٹکرے!  روح کی تقسیم ایسے ہوتی ہے. ہاں یہ تقسیم ہے

تشنہ ‏کامی ***‏

روح تو سیراب نہیں ہے، جسم کو جتنا شاداب کرلیں. یہ پرندہ تو پھڑپھڑاتا ہے گویا قفس پہ اپنے نشان ڈھونڈتا ہے. یہ تو اپنی چیخ سنانے کے قابل نہیں ہے مگر وہ شدت غم جو دل پے طاری ہے وہ شاید اسی سے مچتا اضطراب ہے. آنکھ جو نم ہو جائے تو یہ غم کم ہوجائے اور اشکوں میں دم آجاٰئے. یہ سنائیں حال دل روتے ہوئے ہیں. عمل سیہ کا کیا حساب؟  کون بچے گا؟ ہر اک ہے مجرم زمانہ ہے. اللہ اگر وقت ہے تو وقت کہتا ہے وقت کی رفتار میں اللہ کی آواز سن. سن نہیں رہا کوئی بھی نقارہ حق اور حق فرمارہا ہے 

والعصر 

اور خسارے اس آواز سن کے اور بڑھ جاتا ہے. یہ خسارہ ہے کہ صبر نہ کیا گیا ہے. مالک زمانہ اور حاکم ہے. کہیں پہ وزیر ہے تو کہیں مزدور، کہیں پہ طوفان ہے تو کہیں پہ ریت ہے اور کہیں پہ پھلتا پھولتا درخت ہے. یہ انعامِ ظاہری تو سب پارہے.پھل کھارہے،  سبزی ..گوشت سب کا سب مگر روح کے انعامات کیا ہیں کسی نے کبھی غور نہیں کیا. غور کیسا ہو کہ غور صرف ظاہر پے ہے درون کو کیا چاہیے اس کے لیے صبر چاہیے. صبر کریں پالنہار جس حال میں رکھے. اس نے سانس گن رکھی یے یعنی وہ مختاد کل چھپا ہے. وہ جہاں قہار ہے تو ہمیں بندگی و تسلیم سے کام لینا چاہیے. جہاں بندگی ہے وہاں انعامات یت. غلام حق کی بات کرتا ہے کہ اکر بالمعروف نہی عن المنکر پے ثابت قدم چل رہا ہوتا ہے

میں ‏بے ‏چین ‏انسان ‏!

میں انسان ہوں!
میں وہ ہوں جو اکثر بے چین رہتا ہے 
اضطراب کا زہر لہو میں مانند عقرب ہے 
زہر کا تریاق بس اک ذات ٹھہرتی ہے 
اس سے کون کیسے پوچھے کہ اس کے ہونے کے نشان جابجا ہے مگر وہ کہاں ہے یہ علم احاطہ میں نہیں 
وہ تو.فرماتا ہے 
وسعی کرسیہ السماوت ولارض 
اسکی کرسی وسیع ہے ....!  
تو کہیں فرماتا ہے اللہ نور سماوات ولارض 
پھر کہتا ہے فثمہ وجہ اللہ 
اتنا کچھ کہہ دیا. ہر جانب اسی کا رخ ہے 
تو پھر کہتا ہے 
رب المشرقین ورب المغربین 

اتنے نشان ہیں اور انسان ذات اسکی ذات کی تلاش میں ہے. وہ سامنے ہے اور وہ اسکے ہیچھے بھاگ رہی ہے. اسکی تلاش میں زندگی کے ماہ سال بیت گئے اور پھر اسکو پتا چلتا ہے وہ اندھا ہے 

ایسا اندھا جس کی آنکھوں پے پٹی بندھی ہوئی ہے...!  وہ پٹی آنکھوں کے آگے بندھی ہے. آنکھیں تو ہیں نا. اگر آنکھیں نہ ہوتی تو صم بکم عمی کا فرمان لاگو ہوجاتا ہے 

آو کہ رخ پھیریں اسکی طرف اور ادا کریں سب نمازیں اک نماز میں!  سب دل یکجا ہوجائیں تو دل اک ہوجائے اور اک دل نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور رب کا آئنہ اک ہے. وہ آئنہ جس کے مصفی و مجلی ہونے کی بات خود وہ ذات فرماتی ہے. جس کے اخلاق کی قسم اس نے خود کھائی. وہ عفو کا پیکر اتنا رویا ہمارے لیے کہ اسکو لقب "حریص " کا دے دیا ...

والسماء ‏والطارق ‏***

والسماء والطارق 

دو لفظ، وسعت ہزار 
جیسے کہکشاں میں راز ہزار 
بجتے ہیں دل کے تار 
عشق ہوتا ہے بار بار 
محویت کے جام لکھ بار 
ستم کے تیر سولہ ہزار 
آشنائی نہیں لفظ سے کہ متکلم کون؟  مستند راوی نہیں؟ کوئی ہادی نہیں؟
قسم کس کی؟
چمکتا ستارا کون؟
محمد ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

اللہ کریم نے کیسے کیسے نعت بیان کی کہ بندہ لفظوں کے سحر میں کھوجائے مگر یہ لفظ جادوگری تو ہے نہیں. تحریر دل میں پلتے نکلنے کو بیتاب تھی اور قرطاس مجھے لکھ رہا ہے، قلم چل رہا ہے 

وہ قلم جس کی قسم کھائی گئی "ن " 
پھر اس قلم کو متحرک کیا گیا جبرئیل امین آئے 
اور وہ امّی نہیں تھے کبھی مگر اب کائنات کی وسعتیں سماگئیں 
جب سینہ سینہ سے ملا، صدر سے صدر 
الم نشرح لک صدرک ... تو کمر ٹوٹ گئی 

پھر جب کمر ٹوٹی تو خشیت کی چادر اوڑھے، جسم پہ لرزا طاری،  روح میں اسرار وحی ... نبوت کا آغاز، نشانی سے نشان ہونے کی بات ہے 

پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا جب موسی علیہ سلام سامنے دیکھ کے بیہوش ہوئے 
یہاں تو دل میں عالم سماگئے تو خشیت سے لرزا طاری نہ ہو 
پکارا گیا یا ایھا المزمل 
اے تاریکی سے، اندھیرے سے، قرطاس و قلم کے یکجا ہونے میں،  دو سے اک یعنی وحدت کے سفر میں جو سہا گیا، جو سنا گیا تو پکارا گیا "المزمل،  
محبت کا لقب محبوب نے دیا 
محبت کا لقب تب دیا جب دو نقطے متصل ہوئے، گویا انوارات کا آغاز ہوا، گویا علم ملنا شروع ہوا، گویا نور مکنا شروع ہوا، گویا وحی کے سلاسل میں ربط لامتناہی کا طریق جس کے لیے مقام "ورفعنا لک ذکرک " وضع کیا گیا 

یہ ہمارے محبوب جن کو لفظ اقراء نے دنیا جہان کا نور دے دیا 
یہ ہمارے محبوب جب نور سے نور ملتا رہا اور شجر زیتون کے بابرکت تیل سے سیراب ہوتا رہا،  وہ شجر جس کو تجلی نہ بھی ملے تو شفاف اتنا کہ خود ہی آگ پکڑ لے، جب شعلہ دیا جائے تو حال کیا ہوگا 

نور وحی کا منطقع ہونا 
نور وحی کا رابطہ.
گویا جلال کا سا حال، اک ہو کا عالم اور ویرانہ ء ھو میں ذات باری تعالی ..  
پکارا گیا یا ایھا المدثر 
جیسا کہ سرخ پوش کملی لیے کھڑے محبوب کبریاء، یاقوتی لبوں پہ مسکراہٹ کی تمکنت و جمال
المزمل المدثر ..صبح صادق و کاذب کے حالات ... یہ جیسے رات تہجد سے نمود صبح کا نظارا 
لفظ اقرا سے المزمل المدثر کا سفر اور یہ نور جب مکمل ہوگیا گویا شمس کی مانند طلوع ہوا 
تو فرمایا گیا 
والسماء والطارق 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے نور کی یہ منازل طے کی ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ رشد و ہدایت پے فائز ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ "النجم ثاقب " سے ایسے لاتعداد ستارے نکلیں گے اور فرمایا گیا 

انا اعطینک الکوثر 

تشکر عظیم کے لیے کہا گیا قربانی و نماز کا ..نماز تو محویت کا حال ہے 
محویت عشق کمال کا عالم 
عشق ہو تو قربانی لازم 
تو دی ہے نا قربانی چار یاروں نے 
مگر قربانی کی منتہی امام حسین علیہ سلام سے 
وہ پاک بابرکت ذات جو ستارے پیدا کرکے،  ان کو منور کرتی رہی 
اس ذات پے لاکھوں سلام اورسلام درود پنجتن.پاک  پے،  اصحاب و ال نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
تری نسل پاک میں بچہ بچہ ہے نور کا

وجے دل والی تار، کلام وی ہووے لکھ بار، جیویں چن دی چانن ایویں محبوب دے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم دی روشنی، جتھے نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بس جاوے، اوتھے شمع ہدایت دی بال دتی جاندی اے. اوتھے تو "تو "میں "دا سیاپا ہوندا نئیں. بس ادب نال کھلو جاوو تے مل جاووے یار 

رب نے قسم کھائی والسماء والطارق 
جیویں آسماناں تے اووہی، جیہرا آپ آپ آسمان 
تے صبح سویر جیہڑا تاراچمکدا پئیا اے، اوہدا ناں محمد 
ساہڈا رب سانوں کہندا میں تعریف کرنا محمد دی، صلی اللہ علیہ والہ وسلم، میں ً درود بھیجنا ناں  ...

 ایہو تے درود اے کدھی یسین، کدی حـــــم، کدی طٰہ، کدی مزمل، کدی طســم، کدی حـمعسق، تے کدی الم، تے کدی المــــدثر 

ایڈا سوہنا درود کوئی پیج سکدا؟ پیج کے وکھاؤ، رب رب اے، اوہدی ذات وکھو وکھ اے ...

قندیلِ ‏دل ‏****

قندیل پاک مکرم ہے 
دل سادات کا حرم ہے 
شمع کا دل محرم ہے 
نگاہ سے چلا کرم  ہے
گناہ کا رکھا بھرم ہے  
دل میں بیٹھا مکرم ہے 
محبت ہی دین دھرم ہے 
محبت زخم کا مرہم ہے


ازل کا نور ہے؟  مکرم ہے 
ازل کے نور میں جذب ہے 
مکان میں لامکانی لازمانی 
شہباز کو ملا پرواز کا بھرم 
شہباز نے اڑان بھر کے دیکھا 
فضا میں پاؤں، زمین تو عدم
مڑ کے دیکھا؟  یہ تو ہے جرم


کہاں کی تیاری ہے؟  کدھر کو جانا ہے؟  سیادت کو ملا سید اپنا ہے. غلامی سید کی ہے اور سید نے دیا ہے سادات سے مروج نگینہ. یہ نگینہ حسینی ہے جس سے ملا نور کا سلسلہ. یہ سلسلہ تو مکرم ہے.
وہ  سادات حسنی و حسینی ہے 
وہ گفتار سے،   کرادرِ عینی ہے 
وہ میخوار ہے، گردش پانی ہے  
 عرش کے پانی کا خاص پانی ہے

وادی حرا،  جبل النور دل ہے،  محور عشق میں نقطہ دل ہے 
، کامل عشق اور جذبہ دل ہے 
سہما تڑپا مچلا یہ میرا دل ہے 

یہ فضائے سازگار شہباز کے اڑان کی ہے. اڑان بھر دی گئی ہے اور کہا گیا چلو محفلِ حضوری کی تیاری ہے  چلو اب کہ باری ہے. کرم مجھ پرجاری یے. یہ آیت کوثر جاری و ساری ہے. اللہُ اکبر دل کی آری ہے  ..  دل میں کبریاء جاناں کی مہک آرہی ہے 

مہک مہک کبریاء جاناں کی ہے  وہ دہانہِ غار میں کھڑا منتظر ہے کہ کب آؤں میں اس کے پاس. گھوم کے جانا کہاں تھا مجھے؟  آخر تو آنا تھا مجھے ادھر. سو چل دی سرکار کے ساتھ کہ یاس کو ملے اظہار ساتھ


سبحان ‏اللہ ‏****

سبحان اللہ!  آیت میرے سردار کی ہے 
سبحان اللہ!  آیت سید سادات کی ہے 
سبحان اللہ!  یہ آیت مرے حسین کی ہے
سبحان اللہ!  یہ آیت معراج کی ہے 
سبحان اللہ!  یہ آیت شاہ نوران کی ہے 

آیت کا ظہور ہے کہ آیات کا؟  بسم اللہ ہے تو اسم مگر مظہر بن کے اترا ہے. بسم اللہ سے نکلا دھاگہ. اس دھاگے میں وعدہ ہے اور وعدہ تھا اسکا ارادہ. ارادے کی تعمیل کی میں نے. اس نے مجھے ارادے کی سلطنت بخشنی ہے اور میں نے محو ہو کے اس کے امر کو پورا کرنا ہے  جُز بسم اللہ - دل کو کیا چاہیے  جزدان دل ہے اور بسم اللہ بنی قُران ہے. پیکر عالی امامِ حُسین یقین کی،  استقلال کی تصویر جن کی تصویر سے پانے لگی نور اپنے رنگ. وہ مکمل آئنہ ہیں میرا اور صورت گر نے اس رنگ سے رنگا ہے مجھے کہ صدا آتی ہے 

یا ایھا المدثر 

پکارا گیا ہے!  سنا گیا ہے!  سہا گیا ہے!  جذبہ مقرب بنا ہے!  سائبان ملا ہے.

یا حیی!  یا قیوم 

قائم اللہ کی کرسی اتری ہے اور باقی اللہ نے قرار پکڑا ہے دل میں  اللہ ھو!  اللہ ھو!  اللہ ھو!


اللہ کی صدا دل میں تو یہی ہے کہ مسجود ہوجاؤں مگر ساجد کہاں جائے؟  بسمل کے سو دھاگے،  سو نسبتیں.    نسبتیں مل رہی ہیں اور رقص پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے. بسمل نے عین رقص میں کہہ دیا 

اللہ -- تو میرا ہے
اللہ -- جہان والا
اللہ -- انا کی کرسی والا ہے 
اللہ -- جلال میں رہا ہے 

آج اس کے جلال نے مجذوب کردیا ہے. شخصے بقول:  جاذب بنا دیا گیا ہے مجھے. میں وہ ہوں جس کو دیکھ کے سبحان اللہ کہا گیا ہے . 
سبحان اللہ!  شب دراز نے منزل پالی ہے


خبر ‏مل ‏چکی ‏ہے ‏! ***‏

خبر مل چکی ہے!  

خبر مجھ میں شامل ہوچکی ہے جیسے مری ذات میں خبریں جمع ہیں. یہ جمعہ جس میں مثالیں جمع ہیں یہ وہ محفل ہے جہاں مثالیں دیکھ کے خاموش رہا جاتا ہے اور سرر میِں خبر دی جاتی ہے کہ شہادت سے شاہد ہونا لوح ازل پر رقم ہے. تو نے رقم ہوا پورا کیا ہے، میِں نے قلم بنایا تجھے،  تجھے قلم ہونا ہے میرے لیے. ازل سے الوہی گیت کا لکھا ہے جسکو تو نے پورا کرنا ہے.

ازلی بات ہے،  ابدی بات ہے. کہ اس نے منازل دیں ہیں اور تڑپ کی سعادت دی ہے. یہ سعادت یے کہ اس نے بات کی عادت دی ہے  ذات سے اس نے اپنی تقویت دی ہے. وہ تقوی ہے جس میں راہ عشق کو خار دار جھاڑیوں سے چنوایا کے گزارا جاتا ہے. یہ رقص آبلہ پا،  زخم خوردہ پرندہ کیسے طے کرتا ہے. بُت کے اندر جب اسکی صدا ابھرتی ہے. بت میں وہ ہے اسکی صدا ہے کہ بچا کیا ہے؟  بچنا بھی نہیں تھا کچھ کہ بچا کیا ہے؟  
منزل شہود میں قیود؟  
قیود بھی واجب صعود 
تنزیل میں وہ ہے موجود 
جذبات سے ہٹیں  حدود 
کسی ذات کا ہے یہ ورود 
شاہد -- شہادت --- شہود 
اللہ ----  شہید میں موجود 
شاہد نے شہید ہونا تھا 
شہادت ملی ہے،  ہاں ملی ہے ایسی شہادت جس مین شاہد بھی وہ ہے،  شہادت بھی اسکی ہے اور رستے وہ خود طے کروا رہا ہے. اس نے کہا کہ وہ اپنا نور پورا کرے گا تو وہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا کہ نور اسکا چل رہا ہے زینہ بہ زینہ اور نور کو ادب سے مل رہا ہے قرینہ. یہ شاہ نوران سے ملا وسیلہ کہ جل رہی مری آرزو دیرینہ اور میں کر رہی ہوں ان کی روز و شبینہ.

محو ‏کھو ‏گیا ‏ہے ‏.... ‏!***

محو کھو گیا ہے ... !  

محو کھوتا کیسے ہے؟ محو کو جب بلاوا آتا ہے تو اس پر بیخودی کا ظہور ہوجاتا ہے. یہ بیخودی کا سنگم مجھ میں خودی سے ابھرا ہے  فضا نے مجھ میں کملی کی صورت گھیر لیا ہے. ہواؤں نے رستہ دکھایا ہے. سرکار نے بُلایا ہے 

طٰہ ---- گلِ یسین 
طٰہ----- دلِ حا میم 
طٰہ ----  جلالی شعاع 
طٰہ ---- رمزیہ بقا ہے 
طٰہ ---- اکسیر شفا ہے 
طٰہ ---- قربِ ساعت 
طٰہ----- رنگ سنہری 
طٰہ---- تجلی منتہی 
طٰہ---- منشور الہی 
طٰہ---- خبر کی ابتدا 
طٰہ---- دید کی بقاء

طٰہ سے طسم  کا سفر ہے  طسم ایسی الوہی منشور کی باریک بین شعاع ہے جس سے بقاء کے در وا ہوجاتے ہیں  بقا مجھ میں کھل چکی ہے اور میں اس کی انا ہوں  انائے اکبر سے اکبریت کے جامے میں کسی نے صدا لگائی ہے. صدا جس نے دی،  اس نے کہا 
تو میری ہے، 
میں نے کہا:  تھی ہی تیری 

صدا اٹھی 
خبر سے پردہ اٹھا؟

میں نے کہا پردہ سے پہلے بھی تو تھا،  ہٹنے کے بعد بھی بس آگہی کا در کھول دیا ہے.

اس نے کہا دید کیا ہوئ پھر؟  

میں نے کہا،  محویت!  

صدا لگی:  صدا لگی؟  تو سن!  قم فانذد،  وثیابک فاطھر،  والرجز فاھجر،  ولا تمنن تستکثر 

یہ سیرت ہوئی!  جس کو اپنانے کا نقارہ بجا ہے  ..قم سے کردے کن کہ اوقات سے بڑھ کچھ نہیں ہے کہ تو بے حساب ہے اور بے حسابی دیتا ہے 

صدائے انائے اکبر .....!
اکبریت کا جامہ اوڑھا ہے کائنات نے اور یک بیک ہوتے کہا گیا 
اللہ وہ جو اکبر ہے 
اللہُ اکبر.
اللہ وہ جو بے نیاز ہے 
اللہُ الصمد 
منظور ہوئی دعا 
نذر میں دل لیا گیا ہے 
قبول کیا گیا.
چنا گیا ہے تجھے 
مبارک ہو، تجھے کہ تو سعید ہے 
مبارک ہو، تجھے کہ تری عید ہے 
مبارک ہو تجھے کہ تجھ میں شمشیر ہے 
مبارک ہو تجھے کہ حیدری توحید ہے 
مبارک ہو تجھے کہ حسینی ہالہ ہے 
مبارک ہو تجھے کہ ترا دل بنا رسالہ ہے 
مبارک ہو تجھے کہ شاہ نوران نے آنا ہے 
مبارک ہو تجھے کہ اللہ والا سمایا ہے 
مبارک ہو تجھے سرکار نے بلایا ہے 
مبارک ہو تجھے کہ تو نے کیا کمایا ہے؟



محویت ‏کے ‏چودہ ‏چاند ‏***

محویت کے چودہ چاند 

محویت کے چودہ دیپ دل میں روشن ہوجاتے ہیں جب سے انسان رخِ یار کے فسوں میں کھوجاتا ہے  جیسے جیسے یار کا پردہ ہٹتا جاتا ہے تو انسان کی اپنی ذات استعارہ بن جاتی ہے. انسان جو مست مست ہست میں ہوتا ہے وہ جل اٹھتا ہے. جلنے کے مابعد کیا بچتا ہے؟  کاغذ جل جائے تو دودِ ہستی بکھرجاتا ہے. کاغذ جلے تو شناخت ہوجاتی ہے  یہ شناخت اوج کی جانب لیجاتی ہے. اوج کیا ہے؟ گُلاب دودِ ہستی کی مہک سے ابھر آئے. گُلابوں کے لیے تو زمین بنائی جاتی ہے اور مہک افلاک تک چلی جاتی ہے  فلک والے زمین کی جانب دیکھ کے خدا سے عرض کرتے ہیں کہ 

یہ کون ہے جس کا درد ہمیں جان لیوا محسوس ہوتا ہے  جذبات تو انسان کے ہیں، مگر درد کا دھواں کہاں سے اٹھا ہے؟  

خدا کہتا ہے 
جو مجھ سے، میں اس سے ہوجاؤں تو بات وہ کرے یا میں کرے، بات برابر ہوجاتی ہے 

سجدہ!  سجدہ!  سجدہ!  
یار کو سجدہ بنتا ہے کہ اس سے پہلے تسلیم کے گھڑے ہونا ضروری ہے کہ آیت  دل میں محویت نے بقا کے دروازے کھول دیے ہیں. 

بقا فنا میں ہے 
جلتا دیا یہ ہے 
خدا نے دیا یے 
حرف دھواں ہے 
الف سے ملا ہے 
میم کا دِیا ہے 
الف- میم  دل 
آ، مجھ سے مل 
دل پتھر کی سل؟
چشمہ پھوٹ پڑا 
جذبہ ابل  پڑا ہے 
اللہ نے صدا دی ہے 
صدا نے ملا دیا ہے

محو کسی چاند  میں اپنا عکس نَہیں دیکھتا  ہے . وہ تو اپنا آپ آئنہ ہوجاتا ہے اور رب کو خود میں دیکھتا ہے  سورج سے ملاقات اسکی طے ہوجاتی ہے اسی دوران  وہ سورج کی جانب پرواز میں ہوتا ہے تو روح کو فوقیت مل جاتی ہے.

شہباز لامکانی پرندہ ہے 
مکان میں سے اڑ گیا ہے 
لامکان لازمان کی ہتھیلی 
گلِ اطہر کی یہ ہے کملی 
کملی کالی میں چھپا ہے 
دل، نور کا کب گمشدہ ہے 
جذبِ اطہر میں رات ہے 
عنبر و عود بھی ساتھ ہے 
یہ مہک آسمانی و زمانی 
یہ مہک مکان میں سمانی؟
زمانے مجھ میں سمائے ہیں 
میں کس جا،  جا کے سماؤں.
حق اللہ ...اللہ موجود ہے 
حق اللہ.... اللہ باقی،ساتھی

شب ‏دراز ‏فلک ‏پر ‏ہے ‏***

شبِ دراز فلک پر ہے 

فلک نے اشارہ کیا ہے کہ میں مشارہ الیہ کی جانب سے رقص کنندہ اک برق ہوں. مجھ سے انوار نکل رہے ہیں جیسے میں مقتل میں سیلانی ہوں کہ مجھے اپنی مذبح خانے کی آرائش پر فخر آرہا ہے. یہ افلاک ہیں جنہوں نے مرے ہونے کی گواہی دے ... میں اک موجود حیثیت میں عرش کے پانی سے خود کو وضو پاتا دیکھ رہا ہے. خدا مجھ سے اتنا بے حجاب ہے جتنا آج سے چودہ سو سال پہلے محویت میں پایا تھا. میں اسی محویت میں شمع رسالت کا خاص پروانہ ہے، جس جس کو میرا ساتھ ملے وہ آنکھ اشک بہ اشک رکھے گا.


افلاک مسجود!  ملائک مسجود!  میں نے نازش لمحہ کو سہا ہے گویا کہ زبان دے دی کہ خدا تو نے جو کہا ہے وہ ترا ہونا ہے. یہ اقرار میں نے اس کی دید میں کیا ہے. سر اتار کے اس کے قدموں میں رکھ دیا ہے اور رقص والہانہ شروع کیا ہے. والہانہ شوق سے میں نے خدا سے کہا تھا کہ مجھے جام وحدت پلا 

ساقی پلا اور پلا،  اور پلا 
ساقی مل،  آ،  ساقی مل،  آ 
شام ہجراں میں برق وصل 
دل میں مائل کرم کو شامل 
جز اک قران کہ کیا دل میں؟  
فقر میں راوی نے پایا اک دل 
دل میں پایا رستہ طواف کا 
احستاب!  مت کر مجھ سے 
انتساب!  یہ یقین کی بات ہے 
پاس نہیں ہوں تو دوری نہیں 
یہ بین بین حال میرا ترا حال!  
مرا حال وہی ہے جو ترا حال
 
حالت کی کرسی اتری ہے
 مجھ میں اور حالت میں مقرب ہے. میں نے قرب میں جلال سے لرزہ پایا ہے. دلِ وحشی سے پوچھیے کہ ٹھکانہ الفت کیا ہے؟  دل ہجرت زدہ سے پوچھیے کہ لامکانی کیا ہے؟ مکان میں طوفان کیا ہے؟  یہ ہجرت؟  یہ طولانی کیا ہے. میں نے چکروں پر خدا سے پوچھا کہ کیوں چکر پر چکر دیے ہیں تو کہا اس نے کہ درد کی دوا ہے یہ

زمین ‏و ‏آسمان ‏کی ‏کرسی**** ‏

زمین و آسمان کی کرسی 

زمین میں آسمان کی کرسی سما گئیں ہیں. تو گویا زمین آسمان بن گئی ہے. زمین ہے تو سورج مگر مجذوب ہے. ہوش و خرد اگر بیگانہ رہا زمین کا چکر تو تسبیح سے محروم رہے گا. زمین کے چکر کو چلنا ہوگا. 

چلو ہم چلیں امام ولایت پاس ... والی بغداد کے پاس چلتے ہیں. چلتے نہیں بلکہ وہ بلائے ہیں ..  دل میں بس اک جلوہ بس گیا ہے عالیجناب پیارے بابا جان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ---- 

شمس کی ماہتابی دیکھیے،  عنابی دیکھیے کہ بے خوابی دیکھیے. شمس بڑا بیخواب ہے کہ اس کے اوپر سحاب ہے  سحاب نے محجوب کررکھا ہے جیسے ہی پردہ ہٹ گیا،  شمس ظاہر ہوجائے گا . یہ تو اللہ کی مشیت ہے کہ شمس ظاہر ہونے سے دور ہے. یہ اسکے امر کا دھاگہ ہے جسکو وقت پر کھلنا ہے

سکوت میں رک گئے شاہ جیلان کے پاس اور ساکناں بغداد کو سلام کیا. احذر من شب!  رخت سفر، شب من!  حقایتِ جذب من 

بلایا گیا، اشارہ دیا گیا ہے کہ شمع رسالت، مہر نبوت کے پاس سر بہ قدم جائیں گے. اڑا کے لے جا خاک ہمیں اس کوچہ ء محبوب کے پاس،  ہماری نبض کے انتشار و اضطراب میں آس ہے شہِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دید کی .. ہوا،  جا کے بتا دے کہ عاشق دور بیٹھ کے روتے ہیں، رات کو سوتے میں غم کماتے ہیں 

جبین جھکی ہے،  احمریں شاخ ہے.  یہ مہک جس سے دل شاد ہے. یہ وضو جس سے چلی بات ہے 

آہ؟  واہ؟  نہ آہ،  نَہ واہ .... آہ اور واہ سے پرے میرے بات ہے کہ پل پل دیکھیں اور عضو عضو سے سینکڑوں گواہ بنا کے پالیں شبیہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی. وہ نوارانی دل، دل میں ہے  دل تو ہفت افلاک ہے اور افلاک کی شمع جناب نبی محتشم رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں


بُت ‏****

میں روح تو نہیں خالی!  صدا بُت میں حاوی ہے. دل مجھ سے مخاطب ہے اور میں کس سے مخاطب؟  میں نے خود کے روبَرو ہونا سیکھ لیا ہے. میں اس شوق میں عالمین کو ٹکرے ہوتا دیکھ رہی ہوں. میرے عالم مجھ پر حیرتوں کے افلاک توڑ رہے ہیں. کہا جاتا ہے 

اپنا شوق سنبھال لے!  
شوق کیسے سنبھل سکتا؟
بس بکھرگیا ... 
کانچ تھا کیا؟
کیوں ٹوٹ گیا؟  
گرتے شیشے کی آواز!
بس تو!  
آوازوِں کے آئنے مرے متعقب 
میرے ہونے کے گواہ!  
میں ہوں کس پر گواہ؟  
کسی نے کبھی کہا تم کو مبارک ہوگا سفر؟

دی تو گئی تھی بَشارت 
مگر بھول جانے کی عادت تری ... .


بت ٹوٹا ہے 
روح ناچی ہے 
شادی کی وادی ہے 
اللہ سب کا ہادی ہے 
جذبِ مناجات 
جذبِ حقایات 
مکی بات 
مدنی حال 
امکان میں مکان 
مکان میں امکان 
عکس جبروتی 
آئنہ لاھوتی 
کامل سرکار.
سچی سرکار.
ان گنت درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

سنگِ در نبی ہوں اس لیے وہیں پر ہوں. سنگ کو اشارے ان کے تحریک دیتے. سنگ مجال نہیں کرتے  اس لیے محفل ادب کی خاموشی طاری ہے. یہ غار حرا کی وادی ہے. وادی میں شادی ہے.

 جذب میں مناجات. 
جذب میں حقایات 
حذب میں احادیث.
جذب میں التجائیں. 
مل رہیں ہیں قبائیں


انجذاب کے قاعدے میں قیود نہیں ہیں  تو شہود بھی نہیں ہے. وجود ہو کیا؟  یہ ادب کی محفل ہے. سرر جہاں ہے طاری،  آگئی ہے مری باری،  دل میں کی گئی اخیاری،  رات سے بات مری ہوئی. رات نے کہا رات میں صبح آرہی ہے. عجب بات!  یہ عجب بات ہے مگر صبح و رات کا سنگم ہونے لگا ہے


کنجری ‏دا ‏کوٹھا ‏****

کنجری کا کوٹھا 

اک سانولے سی رنگت،  درمیانی عمر کا شخص مجھ سے ملا اور کہا کہ چل بلاوا آیا ہے. میں نے پوچھا کہ کہاں سے آیا؟  

کہا: شاہ نوران و شاہِ ہادی نے بُلایا 

میں نے بکل ماری اور بکل کا چور دیکھ کے چل دی. راستے میں کنجری کا کوٹھا پڑھتا ہے. میں وہاں رُک گئی تو وہ صاحب بولا: کنجری کے کوٹھے پر ترا کیا کام؟  

میں نے اس صاحبِ شریعت کو بغور دیکھ کہا:  آپ ٹھہرو ابھی، میں آتی ہوں .... 

میں سیڑھیاں در سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو نیچے والے انسان بونے دکھنے لگے  بونوں کو دیکھ کے میں نے کوٹھے میِں داخل ہوتے ساعت کسی طوائف کو درد میں گاتے سُنا 

میں نے اس سے پوچھا تم کو درد کہاں سے ملا؟  

اس نے کہا شاہ نوران نے درد کے پہاڑ دل میں اتار دیے ہیں.

میں نے کہا تم مجسم پاکی ہو اس گندگی میں کیا کر رہی ہو 

کہنے لگی تم مجسم پاکی، گندگی تمھاری اندر کیا کر رہی ہے؟

میں تو گر گئی اس کے قدموں اس نے چور پکڑ لیا تھا میرا ...

کہنے لگی مدینے جانا ہے؟  مدینے والے نے تو ایسے بلالیا مگر خود کچھ تردد نہ کیا؟  

میں نے کہا تجھ سے ملاقات بھی تو لکھی تھی نا 

کہنے لگی،  ٹھہر جا   ذرا مرا درد سن جا. تجھ کو درد کا رسالہ دیتی ہوں وہ دے دینا شاہ نوران کو 

اس تن ناچے مور 
پیا بھاگوں کس اور 
مورے بھاگ جاگن 
جاگ گئی جوگنیا 
پیا،رے!  پیا،  رے! 
نظامی سنگ دل میں 
عاصی کے کنگن ہیں 
لبِ شوخ پر یہ نام؟
اللہ بنا دے مرا کام 
حاضری کا ہو انتظام 
درد میں جھوم ناچوں 
تماشائی دیکھن لگن 
کہون،  حسن ڈلدا اے 
رنگ سوہنے ہادی دا اے 
لہر لہر خراماں مہک ہے 
رگ رگ میں اک دہک ہے 
مورا ساجن،  پیا رے، 
اکھیاں وگاندی نیراں 
ہل گئی اے پتھر دی سل 
یار میڈا،   آ مینوں مل 
سج جاندی راتی محفل 
مئے مستی دی اے ہے کَل 
لوں لوں ہجر دے وچ شل 
اگ دی ماری شوکاں مارے 
صد بلاوو،اج بلاوو،پےبلاوو
اکھ ملاؤو،  بار بار ملاؤو 
بہاراں دی مچ جاوے ہلچل 
عشق وچ بلدی پئی  سچل 
دیوے بلدے تیل دی اے کل 
حرفِ دل وچ سکون دی گل


یہ غم کا دیا جو اس کنجری پاکدامن دل نے مجھے تھمایا، مجھے چکر آگئے. یہ غم مجھے بیہوش کرگیا تو وہ زندہ کیسے ہے؟  غم کیسے اٹھاتی پھرتی ہے وہ؟ میں وہاں سے چل تو رہی تھی مگر بدل رہی تھی. کنول کیچڑ میں ہو سکتا ہے مگر گلاب میں گندگی کیسے ہو؟ میں سیڑھیاں سے اتر رہی تھی تو اس صاحب شریعت سے کہا 

بھائی تو اب چل! میں کلی جاواں گی،  اتھررواں دی اے گل. تینوں سمجھ نہ آوے گی دلاں دی اے گل. سچل سائیاں مینوں یاد دلاون گے کہ سچی بات سچیاری اے  دل وچ اگاں دی لاری ہے .کَلّی جاوواں گی مدینے، ظاہر دی گل ظاہر وچ مک گئی اے  دل دی گل،  دل وچ چلدی پئے اے. ہن تیڈی لوڑ نئیں مینوں

پانی ‏لے ‏لو ‏! ‏*****-*

جوگن کا سوانگ بھرلیا.
جوگی فر وی ملن نہ آیا 


جوگی ملن نَہ آیا،  او بیٹھی رَی صحرا وچ. ہستی دی بستی وچ رنگ نہ رَیا. مستی کتھوں لبدی؟  او چلی چولا گلابی پا کے، کہندی رہی 

اے سہاگ دی علامت ہے 
اے رات   دی علامت ہے 
روحاِں دی گَل جانڑوں گے؟
پیمانہ اِک، خیال دو نیں 
دو، اک ہوئے، جوگ کاہے؟
مورے رنگ دا سرمہ اے 
اکھ نُوں اَکھ مِل گئی اے 
سجن دی گَل مل گئی اے 
جوگنیا بھیس بدل کے گئی 
جوگی جانے کتھے رہ گیا

اجمال میں جانوں کہ گل مک گئی اے.    شادی دی گل اے کہ وصلت دی باتاں وچ ذات دا سارا کھڑاگ اے.

ذات لُکے،  ذات کُھلے 
ذات منگے،  ذات دووے 
ذات آوے،  ذات جاوے 
ذات دوات،  ذات قلم.
ذات لکھے،  ذات لکھائے 
ذات نغمہ،  ذات بانسری 
ذات جمال،  ذات جلال 
ذات کول بیٹھا ملنگ اے 
رنگ وچ مست مدام اے 
شاوواں دی چاکری کیتی 
شاواں نے نوکری دتی اے

جوگ نہ رہیا کوئی!  جوگی وچ ذات کھلی اے!  جوگی تے جوگنیا نہ آکھو کوئی  ذات حاضر تے غائب نیں عکس. آئنہ ہستی وچ آئنہ دی رویت اے  کہاوت چلی:  کہون لوکی کملی جھلی دے دل وچ وسدا مدنی ڈھولا اے. شاد کردا دل نوں مکھڑا سوہنا اے، نورانی لاٹاں وچ کون کھلویا اے؟  کھیڈ نہیں کہ سہے آقا دی رخ رخ نے ویکھن کہ ویکھن ویکھن وچ بندہ اے گیا ... ڈوب گئے؟  ہاں ڈوب گئے ..کشتی ساحل کنارے ہے اور ملاح ڈبی گیا ..  سمندر صدا دتی اے کہ اے سمندر وچ کیہ رولا اے؟  قطرہ دی اوقات کیہ قلزم اچ؟  

قطرہ بولا سائیاں ... .
جے مل جاون تے کیہ گل اوقاتاں؟
باتاں گئیاں تے عمل دی ہن سوغاتاں
قطرہ سمندر اچ یا سمندر اچ قطرہ؟ .
کوئ تے لب کے لیائے فرقاں دا جھولا؟

قطرہ فانی ہویا سی؟
قطرہ باقی ہویا سی؟  
نہ فانی کوئ نہ باقی.
وقت دا ایتھے نہ ساتھی 


قطرہ قطرہ بہنے لگا اور بہنے سے آبشار بننے لگی. آبشار نے پانی کے چھینٹے اڑائے تو آبشار سے صدا لگی 

آؤ!  پانی لے لو 
آو!  پانی لے لو


عیب ‏دار ‏------*****

اک دوست ملا جس کا نام عیب دار تھا. میں نے اسے نہیں بتایا کہ میرا نام پاکیزہ ہے اور یہی بتایا گنہ گار نام ہے میرا. عیب دار اور گنہگار تو دوست ہو سکتے. میں اس عیب دار کے عیبوں کو دن رات من میں گنتا رہتا اور خود کو پاکیزگی پر مسند بٹھاتا. میرا وطیرہ عیب دار سے چھپا رہا کیونکہ وہ تو میرے دل میں نہیں جھانک سکتا تھا .... 


ہم دونوں اک دن ولی کے پاس گئے. سنا تھے ولیِ کامل ہیں ... مجھے کہتے 

عیبوں کو گننے سے اپنا کھاتا وسیع ہوجاتا ... اللہ کی مخلوق کم تر جاننے سے پاکیزگی گھٹ جاتی ہے 

پھر دوست سے مخاطب ہوتے کہنے لگے 
.چلو یہ مٹھائی بانٹو  تمھاری دعا قبول ہوگئی 

میں نے کہا کہ مری دعا؟

کہنے لگے کہ اس نے خود کو گِنا اندر اور تو نے باہر والوں کو گنا    ...اس نے سُن لی پاک دل کی 

بس احساس ہوا 
.ظاہر دی پاکی پلیدی.
ظاہر دی پلیدی پاکی 
اندروں نہ کریے صفائ 
نہ ملیا، لکھ کرو دہائی.
خاک جھوٹ دا پلندہ.
سچ سچی تری صورت 
دل صاف تو بات بنی.
محفلِ  حضوری  ملی

اس کی دعا اور مٹھائی --- خالی ہاتھ والے، لےجا اپنی دہائی،کام نہ آئے گی ترے  لڑائی.اگر جہد سے شہادت کمائی،ساری بات پھر سمجھ آئی

ھو ‏الظاہر ‏سے ‏ھو ‏الباطن ‏تلک ***‏

رنگریز کون ہوتا ہے؟  رنگن جوڑا لگ پے سی جے نام اس دا لوو گے. فر تے رنگریز ہویا کون؟  سچ گال ایہو اے کہ رنگریز تے اصل میں آپے او اے ..


ساری خطائیں جب حل کرلیتا ہے ایسے کہ شفافیت بچتی ہے تو آئنے سے کامل سائیں ابھر آتے ہیں  کامل سائیں سچے سائیں ہیں. ان کی شبیہ کا دل ہر ہالہ ہے  وہ الوہی مشفف انوارات سے بھرپور مجلی ہو تو درون سے اُجالا باہر پھیلنے لگتا ہے. لوگ ظاہر والے پر حیرت کناں ہوجاتے ہیں مگر یہ تو درون کی کرشمہ سازی ہوتی جو ظاہر ہو جاتی ہے 

اللہ فرماتا ہے 
ھو الظاہر ھو الباطن 

کامل سائیں بارے یہی بات ہے 
ھو الظاہر،  ھو الباطن 

بس درون سے پیمانہ کا رنگ ظاہر چھلکتا تو اس کے ساتھ مقناطیس پر لوہا چپکنے لگتا ہے. کشش والو!  آو کہ دیکھو قطبی مقناطیس کتنا کشش والا ہے. قطب والو آؤ ..قطب پالو ... قطب سے برقریزی نے ظاہر کیا؟

کیا شعاع شمال و مغرب کی محتاج ہے؟  

شعاع دراصل مرکز سے نکل پھیل رہی ہے لوگ سمجھ رہے ہیں قطب پر الوہیت زیادہ. حقیقت مل جائے تو کیا چاہیے کہ بندہ سچائی ہو جاتا ہے. سچے انسان کے ساتھ سچی ذاتیں ہوتی ہیں. اس لیے نسبتیں حقیقت میں فیض دینے لگتیں ہیں اور لوگ فیض لینے آجاتے ہیں. فیض دینے سے روکنا زیادتی ہے اور فیض تو پھیل کے رہتا ہے. جس طرح خدا کا نور پھیل جاتا ہے اسی طرح نوری شعاعیں متصل آئنہ دل میں ہیئت کدہ ہو کے خوش خصال خوش مقال خوش جمال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل ڈھال لیتی ہیں. بندہ پھر کہاں جاتا ہے. انسان فنا ہو جاتا ہے اور بقا کے در والے سے بقا کے مرکز تلک قافلے والے مل جاتے ہیں. فنا میں داخلہ ہے اور بقا والے ظاہر ہونے والے ہیں
جسم میں اک شعاع رقص میں ہے. وہ شعاع کس لَو سے نکلی ہے. عشق کی جل اٹھی ہے کب سے مگر جلانے کی تیاری تو اب ہوئی ہے. جب تک کالا رنگ نہ مل پائے گا یہ جلاتی رہے گی. اس کالے رنگ پر رنگ کالا چڑھ جائے تو نیلا رنگ کہاں سے اٹھے گا؟  یہ تو کامل سائیں جانیں گے اور سرکار والوں کی مرضی جیسے چاہیں دیں اور جیسے چاہیں لیں. ہم تو نیاز والے ہیں. ہم نے نیاز سیکھی ہے کہ غلام نے سر جھکایا ہے کہ نہ انعام کی لالچ نہ سزا کا خدشہ بس جلوہ دائم رہے چاہے دنیا ساری ادھر کی ادھر ہو جائے ... ذوق یہی ہے کہ کھال اتار لی جائے اور کھال اتر جائے تو کپڑا کے پیچھے کیا بچتا ہے؟  

ھو الباطن سے ھو الظاہر کا سفر ہے.

کسی نے درون میں جذب ہونا ہے 
درون والے نے بیرون والوں کو جذب کرنا ہے 

یہی تو کلمہ ہو جانا ہوتا ہے اساسِ ایمانیات یہی ہے کہ کلمے کی عملی تفسیر کا نتیجہ یہی ہے کہ سب ہیرپھیر کے بعد بچے تو جلوہ ء محبوب

ستارے ‏سے ‏ملنا ‏ہے ‏****

ستارے سے ملنا ہے اور ستارہ ذات میں مانند شہاب ثاقب ٹوٹا ہے. زمین ساری دُھواں دُھواں ہے. عالم ذات میں متعدد آئنے ہیں اور مرے عکس و شبیہات رقص میں ہیں. لاتعداد شعاعوں نے مجھے گھیر لیا ہے کہ آنکھ چندھیائیں دیں.

اٹھو! غازیِ کوئے جناں 
اٹھو! شہید وادیِ حرا 
اٹھو! مرگ نروان جان 
اٹھو! تنگی آسانی مان


فلک سے سیڑھیاں -- میں نے زینہ بَہ زینہ دیکھیں ہیں -- زینہ بہ زینہ رسائل تھما جا رہے ہیں اور زمین مری خبریں ایسے نشر کر رہی ہیں کہ جیسے میں منشور الہی ہے. میں کتابِ الہی ہوں اور مجھ میں حیدری شمیشر رکھی گئی ہے جس کے وارث سیدنا امام حُسین رضی تعالی عنہ ہیں

ستارے کی بات کرنے سے پہلے لمبی رات کاٹنی پڑتی ہے  شبِ ہجرت کا دھواں شبِ وصلت کو جَنم دیتا ہے  اشک کے وظائف سے سجی رات جب صبح میں ڈھلتی ہے تو طٰہ صبح کے اُجالے میں مقامِ ادب ہے. یہ جلال کی عین نمود ہے جو دل میں شَہود ہے. راز میں، وہ وجود ہے. میں کس جہاں میں موجود ہوں؟  یہ جہاں جہاں جاؤں قدسی ہالے ہیں اور نوری دوشالے ہیں. مہکِ گلاب سے فضا سرخ سرخ ہے اور اشجار سلام میں جھکے کہہ رہے ہیں 

امت کے رہبر کو سلام 
شمس الدجی کا سلام 
علیین کی جانب سے ہے 
سلام میں ہوتا ہے  کلام 
بات کرتا دل صبح و شام 

کلام کِیا کیا؟
سحاب کی روشنی ہیں آپ
گلاب کی  تازگی  ہیں   آپ 
آب گِل میں نغمگی ہیں آپ 
کائنات میں زندگی ہیں آپ 
رفتگی میں آسانی ہیں آپ 
الف لام میم ہستی ہیں آپ 
حا میم  کی بندگی ہیں آپ 
وصلت کی چاشنی ہیں آپ

جمال سرکار میں بیٹھی نور کے دِل پر کالی کملی والے کا سایہ ہے. سایہِ دل میں کمال کی فرحت آپ . نور نے شاہا کی بیعت کر رکھی ہیں، ان کی قدم بوس ذات مری ہے اور سجدہ گاہِ دل مرا جزدان بنا اور قران کی روشنی ہیں آپ.

ارشاد ہے کہ اٹھو،  افلاک سنبھال لو،  افلاک میں سواری کرلو اور شبِ وصلت کی تیاری کرلو ... انتظار ختم!  حال زار ختم!

کہا جاتا ہے فلکیات کا نظام پنجتن پاک سے چل رہا ہے اور پنجتن پاک کی خوشبو دل میں بسی ہے

Friday, February 26, 2021

بابا ‏آتش ‏دین ‏***

بابا آتش دین کے گرد ہُجوم تھا. بابا آتش دین اک ماہر طبیب اور کیمیا دان تھا. وہ اکثر آگ سے مختلف قسم کے تجربات کرتا رہتا تھا ... وہ روح کا طبیب تھا. 

 طبیب کے گرد دوائیوں کا مسکن .اس کے پاس کچھ وجدانی صلاحیتیں تھیں اور ان کی کچھ نسخہ جات تحریر کیے جا رہا تھا  .... روح کی کیمیا گری کے نسخہ جات،   خودی میں ڈوب جانے کے مصحف ...

. اک دن مریض عشق اسکے سامنے آیا ، نور سے کامل مگر حیا کی چادر اوڑھے کسی مصحف کلمے کی مانند 

طبیب عشق: دیجیے کوئ نسخہ کہ روگ لگ گیا ہے،  عشق ہوگیا ہے .. 

مریض عشق کو حضرت عشق کہیے کہ وہ مسیحاؤں کے پاس جاتا رہتا تھا .."حضرت عشق "گویا خضر راہ بن کے جانے کتنے بہروپیوں کے سینے کھنگال چکا تھا 

طبیب عشق نے کچھ غور سے دیکھنا چاہا کہ چیخ مار دی ...

یہ وجد تھا    
یہ حق تھا
یہ  قران تھا 
یہ شاہ  ء کیمیا کا اکمل نسخہ 
یہ حادثہ ء عشق کی بربادی کی جینے بعد کا قرینہ 

طبیب عشق نے چادر بدل دی 
یہ روح کی چادر تھی 

"حضرت عشق "نے چادر دی ہی تھی،  طبیب عشق کی روح پرواز کر گئ ...  اب طبیب عشق تو اپنی روح کی تلاش میں گم جبکہ حضرت عشق کی چیخیں .. 
گم تھا رند میخانے میں،  نظر کے تصادم .. ہوئ ملاقات اس سے.   کس سے؟  وہی جو حضرت عشق ...وہی جو طبیب عشق میں ..  
عشق نے دیو مالائ کہانیاں سنیں تھیں کیا؟  گھوم رہا تھا "کسی "کی روح کے بل اور کہے جا رہا تھا 
قلندر کی زیست میں چکر بہت 
ابدیت کے جام بہت،  کام بہت 
شام ہو،  دن ہو،  رات ہو،  دوپہر 
پا بہ زنجیر رقص میں ہے قلندر

طبیب عشق نے حضرت عشق کے ہاتھ کو لگایا ہاتھ کہ جل گیا اسکا اپنا ہاتھ ..... طبیب عشق کا ہاتھ جل رہا تھا اور جلتے ہاتھ سے طبیب عشق نے آگ اٹھائی اور پورے تن من میں اُس کے لگا دی جس نے چنگاری سی دکھادی  .

.    یہی بابا آتش دین کا کام تھا     ....بابا آتش دین تماشا دیکھ رہا تھا جبکہ حضرت عشق جل رہا تھا.. اس لیے طبیب عشق، بابا آتش دین بھی کہلاتا تھا ..  کیونکہ وہ آگ سے کھیلا کرتا تھا ..جلنے کے بعد کیا دیکھا گیا ..

علی کا نقش تھا،  نور میں مخمور تھا.   ع سے عین نور،  ع سے عارف کی معرفت،  ع سے عکس جلی،  ع سے علی ولی اللہ ع....کو دیکھنے میں مصروف تھا حضرت عشق کہ طبیب عشق نے خاموشی سے اسکو دیکھنا تھا کہ تماشائے ہست دیکھتے.   اچانک سے ع عکس جلی نے محمد کی میم کی شکل اختیار کیا .. محمد کے نقش پر دودھ گر رہا تھا گویا کہ نور کی پھوار ہو

    آتش بابا نے آتش بازی کے نسخے اٹھائے اور نقش محمد کے طواف میں وقت  گزار رہا تھا کہ حضرت عشق نے طبیب عشق کو پکڑ لیا،  آگ ساری اسکو دے دی. اب سوچیے کہ  آتش بابا کون؟

یہ عکس تھے،  ارواح ضم ہوگئیں    ...نہ حضرت عشق، نا طبیب عشق ...بس کوئ بابا رقص کرتا رہا ..  
بابائے عشق میں مجلی آیات بھی 
بابائے عشق میں گلاب سے بھرپور ہار بھی 
موتیے کے مہک،  اشکوں کے ہار بھی. 
حسن کی کامل سیرت کے مصحف بھی

یہ آمیزش کیوں ہوئی؟  یہ نا انصافی تھی؟  نہیں ... اک نے ایک کے دو ٹکرے کیے اور دو ٹکرے روگی،  ہجر کی آگ میں جلتے رہے...ابھی تو باری تھی ..ابھی تو ملنا تھا ..ابھی تو جذب ہونا تھا ..ابھی تو ضم ہونا ..دونوں نے اک دوسرے کو حصہ دینا تھا ...

کمال کیسے پاتے ہین؟ اوج کیسے ملتا؟  حادثے کے بعد جیے جانا،  جینے کے بعد جینا سکھائے جانا .... 

آج کوئ کسی خضر راہ سے پوچھے کہ موسویت کی چادر میں عیسویت کیسے نبھاتے، عیسویت کے گل دان میں موسوی کلیاں کیسے کھلاتے تو قدرت کی آتش بازی دیکھے اور بتائے بابا آتش کون؟

بابا آتش دین ۲۰۱۹

رات--** ‏

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

زینہ ‏بہ ‏زینہ ‏

سورہ الانشقاق آیت نمبر ۱۹ 

تم ضرور منزل بہ منزل چڑھو گے 
تم ضرور اک حال سے دوسرے حال کو پہنچو گے 
تم ضرور برائی سے اچھائی تک پہنچو گے 
شیطان ابلیس اچھائی سے برائی کی جانب لیجائے گا 
تم جادو سے گزرتے بے یقینی میں مبتلا ہو جاؤ گے 
تم بے یقینی میں یقین سے آن ملو گے 
تم غیب سے حاضر تم حاضر سے غیب پاؤ گے 
تم انکار سے اقرار تک پہنچو گے 
تم جوانی سے بڑھاپے تک پہنچو گے 
تم بیج سے پھل تک پروان چڑھو گے 
تم جھوٹ سے سچ کی جانب سفر کرو گے 
تم ہجرت سے وصلت میں اللہ کو پاؤ گے 
تم شر سے خیر پہنچانے والے ہو جاؤ گے 

فان یعمل مثقال ذرت خیر یرہ 
تو رائی برابر کا انجام چاہے خیر کا ہو یا چاہے شر کو ہو انجام کو پہنچے گا 
فان مع العسر یسرا 
تم آسانی تنگی سے حال کو پہچانو گے 
تم بتدریج آسانی پاؤ گے 

اے ایمان والو ..  

اپنے دل کی تنگی پہ خدا سے مایوس مت ہو. تم بتدریج تنگی سے آسانی تک پہنچو گے ... تم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لو ...مولا مستجب کر ...ان تمام مومنین کے دل پہ انوار حدت کر ... تمام دل جو روشنی پاتے ہیں ان کو مزید روشنی دے.

نہ ‏سایہ ‏ہے ‏اور ‏شجر ‏ہے

نَہ سایہ ہے اور شَجر ہے
حسیں علی کا پسر ہے 
یَزیدیوں سے یہ لڑا ہے 
کَفن کو باندھے کھڑا ہے 
دلاوری میں پر غَضب 
کمال اس کا ہے نَسب 
وَفا کی خوب ہے مِثال 
خُدا کا عین یہ جلال  
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا یہ با کمال ہے 

 
قَمر کا یہ ہے رشک بھی.
ہے آنکھ اشک اشک بھی 
سِتارہ وہ فَلک پے ہے 
مکان جس کا زمیں ہے
خدا کا مظہرِ جلی ہے 
علی کے گھر کی کلی ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا  یہ باکمال ہے

وہ اوج پہ قمر کا رشک 
یہ آنکھیں اشک اشک 
اسی کی بات کا اثر 
ستارہ وہ فلک پر 
جلال کی نمود ہے 
مثالِ عیں شہود ہے
لہو لہو وجود ہے 
وہ تیر یہ کمان ہے
خدا کو اس پہ مان ہے 
یہ زیست اسکی.شان ہے
عجب یہ داستان ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بڑا یہ باکمال ہے

نور ایمان

متلاشی ‏۳***

متلاشی نمبر ۳ 

محبوب کا در شہد سے میٹھا تو محبوب کیا ہوگا! محبوب کی میم میں سجا رنگ ہے. محبوب کی میم نقل سے اصل تلک کا سفر ہے. یہ سفر خضر ہے، فنائیت میں جس کی حذر ہے نہ خطر ہے. دل کے دیپ جلانے سے رفعت شانِ شایان ملتی ہے. یہ اوج تو ذیشان کو ملتی ہے. فاطمہ سیدہ ہیں،  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری ہیں. ان کی محبت میں کائنات ساری ہے. یہ تفکر میں خالق کے چمن کی آبیاری ہیں، ان سے نسب حسب میں سرداری چلی ساری ہے ... 

باقی کچھ ہے؟ اگر ہے تو ہے شرک 
خالی دل میں حرم کی والی ہیں 
وہ مصور، جسے کی دید کی جانی 
ان کی آمد پہ دن بھی رات لگے 
وصل کی میٹھی ہر جو بات لگے

رات کے تصور میں اک یاد پیوست ہے. وہ یاد جب روزِ الست عہد کا نغمہ گایا گیا تھا. جس وقت میرے وجود کے سارے سوتے بکھر کے یکجا اک عالم میں ہوئے اور میں نے کہا 

اللہ ھو رب العالمین 
محمد رحمت العالمین 

تب مجھے اس دلاویز ہستی کی پہچان ہوئی تھی. وہ ہستی جس نے دل کو وہ نور بخشا جس کے دم بدم دھیرے دھیرے لازوال اوج میں رہنے کو حریت مر مٹے.  اس وقت سیدہ کے پیش، پیش لم یزل ہم نے دیکھیں آدم میں صورتیں!  سب سے برتر خوبرو صورت یہی تھا!  ہاں یہی تھی جس سے دل و دماغ کے آئنے کھلتے بند ہونے لگے! جس سے غیبت و جلوت کا فرق مٹنے لگا تھا  جس سے عصر غائب  عصر حاضر ہوگیا ... کیسا خسارہ؟  کیسا؟  خسارہ نہ رہا!  دل مومن تھا!  دل مومن رہا اور دل کے دلاسے کو کہا گیا "ما ودعک ربک وما قلی "  ... آنکھ کھولوں یا بند کروں اک جلوہ ... قائم حضوری میں رویت عکس جمال و کمال فاطمہ اور رویت ظاہر میں زیبائشِ جہان میں عکس پری چہرہ!  پری چہرہ کا حسن کہ امام عالی حسین!  وہ امام جن کے لیے عصر رک گیا!  ہر زمانہ ان کا ہوگیا!  ہر جا ان کا جلوہ ہوگیا .....

دعا ‏

انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو