Thursday, October 29, 2020
محبت
Saturday, October 24, 2020
یقین
Tuesday, October 20, 2020
کعبہ تو دیکھ چکے ہو
مجھے خدا نہیں ملتا
مجھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا! اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے. یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا. قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی. اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا! دیکھے گا کیا؟ جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے.
خُدا کیسے ملے گا. ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟ میرا نفس؟ یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...
مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے
بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟ بندہ کیسے کیسے الزام رب پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب میں لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...
بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں، پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں، آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟ وہ کہاں ہے؟ تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟ تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا
Friday, October 16, 2020
یاد کی گلی
Thursday, October 15, 2020
حرف مدعا
لکھنا حل نہ تھا : خط
سر دست میرے لفظ خالی.ہیں
درد سے کہو مجھ سے ملے
الف کی محفل
کوئی امکان نہیں : چارہ گرِ شوق
سلام
Wednesday, October 14, 2020
جس کی کرسی کو عرش پر قرار ہے
Jul 24
جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا
سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے تے نور دا ناں لکھیا اے
سرخی نے پالیا سرخی چولا اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا
لالی نے کیتا مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !
ھو دی گلاں کریاں ہن کیہ کیہ میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال
اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا میں نے
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا جام مل گیا ہے
وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے
بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو
متلاشی روح کا سفر
زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں کی جانب پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے . آسمان کی بُلندیوں سے پرے رنگ و نور کا جہاں ہے . اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...
''اے خاک نشین !
''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے ہوتے تجھے وہ نظارے دیکھنے کو ملیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر باندھ ''!
اٹھ خاک نشین !
قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے .
محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !
''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی .
محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے
عقل والے بے عقلوں سے بڑھ گئے
آجا ! عشق کی بازی کھیل لے
اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے
مقصد ء حیات پورا کرلے
محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا. جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں .
زندگی اور جنگ
زندگی اور جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ
زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔
''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔
بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔
جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے
زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.
صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.
دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.
وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے.
Monday, October 12, 2020
خوشی
اٹھو اس گھاٹی سے
عرفان ذات
کریم نفس کے دھاگے سے
رگ نوید میں مسودہ ہے
خالق کی رحمت
نورِ حجاب کی بات ہو یا نورِ انسان کی
بہت خوب دلنشین احساس
اے صدائے کن
میرا خدا
ابھی جلوہ گاہ سے لوٹا تھا
الف
دعا
وہ میرا ہے
شمش کی تب وتاب
وہ مجھے لکھ رہا ہے
وہ کہنے کو لامثال ہے
کیفیت
درد ترا مجھ میں بول رہا ہے
درد ترا مجھ میں بول رہا ہے مجھ میں شور ہو رہا ہے --- لہر لہر کہانی ہے میاں ---- زندگی برموج زبانی ہے میاں --- کنارا ملتا نَہیں ہے اور آنکھ میں اشک رسانی ہے میاں -- ''کیف ھذا ''سے ''تکملو تعدلو'' کی بات سنا کریں ---- ''وتعدو وثبت والحق ''سے ''والجُملَ ''کی کہانی ہے ۔۔ میں نے حرف ہائے جملہ بقا کہا، بات ہے! سزا کی بات ہے-- انتہا کی بات ہے -- دلربا کی بات ہے ---شجر انتہا کی بات ہے -- ساز دل میں سادات ہیں -- یہ بڑی شان کی بات ہے --- دل جمع ہے اور تنہائی کی بات ہے -- موجود ہیں --- نفی کی بات ہے --- کہانی رقم ہو رہی ہے اور'' میں ''رقم کر رہی ہے مجھے --- ازلی اور ابد کی تیاری کی ہے -- جس نے بھیجا ہے وہ اچک لے گا کسی بجلی کی مانند، پھر مرے پاس کچھ نہ رہے گا اور رہے گا کیا؟ نور الھدی کا آئنہ ہوں -- نور باقی رہے گا -- جب چاہے بلائے جب چاہے ستائے کون جانے گا کہ کلام العشق میں ''حب العطش ''سے واجب درود تلک کہ بیانی باتیں محض کہانی نہیں ہے، یہ شعلے جلے ہیِ دل میں -- پریتم کریو تے پریت کریو سارے زمانے نے چکھی نہیں پریت دی زہر -- میٹھی ہے وہ زہر ہے -- کھاؤ اور مرجاؤ -- مرجائیں گے میاں --- لہر لہر ہو جائیں گے میاں کاشانہ رسالت میں رہنے والے اشکِ جوہر سےپوچھو کہ عزیز ہے یہ دل. ،وہ چاہیں جس کو عزیز رکھے اور وہ رحمت بانٹنے میں حریص ہیں --- وہ شاملِ حال ہے، جس نے حرف دیے زبان دی -- کیف کی سرحدیں ہیں یہ سرمدی لہریں ہیں --- یہ وجدانی باتیں ہیں -- یہ فہیم سمجھائے تو فہم میں آتی ییں کہ کاجل لگ جاتا ہے اور پھر سندر ہو جانے پر حجاب کرنا پڑتا ہے۔ بس حجاب ضروری ،طواف ضروری. سندر ہی سندر کا طواف کرتا ہےاپنے درد سے تھک گیا ہوں میں --- اپنی ذات میں سمٹ گیا ہوں --- ترے حجاب میں چھپ گیا ہوں --- تری ذات سے نکلتا نہیں ہوں اور تو مجھ میں حل ہے اور سطریں ترا عکس ہے --- عشق مسجود ہے جسطرح جبین نے عہد کیا ہے کہ کوبہ کو تو ہے تو جبین میں راز کیا ہے؟ یہاں سے تو ملا تو میری ذات مکمل ہوگئی --- میں نے تجھ تلک کا سفر شروع کیا ہے --- ذات مری گم ہو رہی ہے --- حل ہو رہی ہے --- موجہ ء دل گمشدہ --- ذات بحر بے کنار شد --- نیستی! نیستی! نیست! من کیست؟ تو نہاں؟ تو ہی عیاں! من شاہد --- اشھد مکمل ہوگیا -- شہادت مجھ میں ہو رہی ہے --- میں اپنی خودی میں شاہد ہوں -- من میں تو -- غلام منستُ --- من کجا؟ غلامِ توئی --- کیا نصیبا! مرا نصیب اچھا ہے کہ ترا ہاتھ دل پہ رکھا ہے --- یہ پلکیں جھک کے صفائی کرتی ہیں۔۔۔ تری رویت! رویت کو مطہر کرنا ہے تاکہ تری لوح کو چھو جائے دلِ نمازی --- حریم دل میں تری نیابت کے جھنڈے --- تو اپنا آپ خلیفہ ہے --- انسان نہیں کوئی بس جہاں ترا --- تری راجدھانی میں شاہ بن گیا ہے کوئی --- یا عزیز منست! یا علیم منست! یا خالق منست! منم قربانم! منم عصیانم شرمسارم! معافی نامہ تحریر کردم! یہ دل دھیان برد! منم بردم تہہِ نہاں تو آیا ہے!لہر غم ہوگئی ہے میاں! دھیان میں کھو گئی میاں --- تجھ میں منزل میری --- میری نیت کی سچی کہانی -- میری حیات کی گمشدہ کتاب -- ترے اوراق نورانی -- تو وجدان! تو فرقان! تو جمالِ کی کہانی! حق تو یے بمثال میم!حی علی الفلاح --- فلاح بہ خیر العمل نقارہ ء حق! خیر البشر الواجد کی تحریر --- تحریر پڑھ لو ورنہ اپنی کہانی گم ہو جانی --- پانی میں پانی ہو جانی -- وہ محترم ہیں اور میں احرام حرم کو لپٹی کتاب کو دیکھے جاؤں ---اے ضوئے دل سلاماے شمعِ فروزاں سلاماے زندہ اسلام سلاماے حیاتِ جاوادں سلاماے شافی محشر سلاماے ساقی کوثر سلام.اے نوری ہالے سلاماے ذو وقار سلام